Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

اتوار، 29 اکتوبر، 2017

میٹھے بول میں جادو یے۔



ہمیشہ میٹھے بول بولو



زندگی میں ایسے موقع آتے ہیں جب ہمیں دوسروں کو سمجھانے بجھانے اور نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔جب ہم دوسروں کو سمجھاتے یا نصیحت کرتے ہیں تو دراصل اُن کے دلوں سے مخاطب ہوتےہیں ۔ نصیحت کرتے وقت آپ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا لہجہ تحکمانہ نہیں ہونا چاہیے۔آپ کا اسلوب مشاورانہ ہونا چاہیے۔
ایک روز رسولؐ  نے عبداللہ بن عمر کو نمازِ تہجد کی ترغیب دلا تے ہوئے فرمایا؛
عبداللہ!تم فلاں کی طرح نہ ہونا۔وہ رات کو قیام کرتا تھا، پھر اُس نے رات کا قیام ترک کر دیا۔
آپ دوسروں کو اُن کی غلطی کا احساس یوں دلائیں کہ اھیں محسوس بھی نہ ہو۔
عبداللہ بن عمر مبارکؒ کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو اس نے الحمداللہ نہیں کہا۔ابنِ مبارکؒ نے اُس سے پوچھا؛
جب کوئی آدمی چھینکے تو کیا کہے؟
اس نے کہا:الحمداللہ۔
اس پر عبداللہ بن مبارکؒ نے کہا:یرحمک اللہ۔
رسول اکرمؐ کا طرز عمل بھی یہی تھا۔
آپ کا طرز عمل تھا کہ عصر کی نماز کے بعد یکے بعد دیگرے تمام بیگمات کے ہاں تشریف لے جاتےحال احوال دریافت کرتے، کوئی ضرورت ہوتی تو اس کا بندوبست کرتے۔                    زینب بنتِ حجش کےہاں جب جاتے تو وہ شہد پیش کرتیں۔ آپ کو میٹھی شے اور شہد بہت پسند تھا۔آپ شہد کھانے لگ جاتے ۔ اور زینب سے باتیں بھی کرتے رہتے۔اس وجہ سے اُن کے ہاں ذرا دیر ہو جاتی۔ عائشہ اور حفصہ کو اس بات پر غیرت آئی۔ اُن دونوں نے طے کیا کہ رسولؐ آئیں تو اُن سے کہنا ہےکہ آپ کے منہ سے مغافیر (کھانے کی گوند جس سےمیٹھا شربت بنتا ہے لیکن ہلکی بو آتی ہے) کی بو آتی ہے۔رسولؐ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ اُن کے منہ سے یا بدن سے بو نہ آئے۔آپ حفصہ کے ہاں تشریف لے گئے۔انھوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا کھایا ہے۔ آپ نے بتایا کہ زینب کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ حفصہ بولیں؛
مجھے آپ سے مغافیر کی بو آتی ہے۔
آپ نے کہا؛ 
نہیں ، میں نے شہد پیا ہے لیکن آئندہ نہیں پیوں گا۔ آپ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کسی کو یہ بات بتانی نہیں ۔
اُن سے  رخصت ہو کر آپ عائشہ کے ہاں گئےتو انھوں نے بھی وہی طے شدہ باتیں کہیں ۔ چند دن گزرے۔ اللہ تعالٰی نے سارا معاملہ کھول کر آپ کو بتا دیا۔ حفصہ نے بھی یہ بات افشا کردی۔ آپ اُن کے ہاں گئے۔ وہاں شفا بنتِ عبداللہ بیٹھی تھیں جو طب سیکھ رہی تھی اور لوگوں کا علاج کرتی تھیں۔ آپ نے حفصہ کو اُن کی غلطی باور کرانے کی خاطر شفا بنتِ عبداللہ سے مخاطب ہو کر فرمایا؛
جس طرح تم نے اسے لکھنا پڑھنا سکھایا اُسی طرح اسے چیونٹی کا منتر(رقیہ النملہ )کیوں نہیں سکھاتیں؟
چیونٹی کا منتر چند بول تھےجو عرب خواتین کہا کرتی تھیں۔ یہ کلام نہ نفع دے سکتا تھا نہ نقصان ۔اس کے بول یہ تھے۔
دُلہن تیار ہو رہی ہے۔
مہندی لگا رہی ہے۔
آنکھوں میں سرمہ ڈال رہی ہے ۔
تم ہر کام کرنا لیکن شوہر کی نافرمانی نہ کرنا ۔
 اس میں حفصہ پر تعریض تھی۔
ایک اور واقعہ سنیے۔ اسلاف میں سے کسی بزرگ سے ایک آدمی نے کتاب پڑھنے کے لیے لی۔چند دن بعد اُس نے کتاب لوٹائیتو اس پر سالن اور پھولوں وغیرہ کے نشان تھے۔ کتاب کا مالک خاموش رہا ۔ کچھ عرصے بعد وہی آدمی پھر ایک کتاب لینے آگیا۔اُن بزرگ نے اُسے کتاب ایک پلیٹ میں رکھ کر پیش 
کی۔




مجھے صرف کتاب چاہیے۔ اُس نے کہا۔ اُس پلیٹ کی کیا ضرورت ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا؛
 کتاب اس لیے کہ آپ اسے پڑھیں اور پلیٹ اس لیے کہ کھانا اور سالن وغیرہ رکھ لیا کریں ۔
اُس آدمی نے کتاب لی اور چلا گیا۔
بات اس تک پہنچ  چکی تھی۔
مختصر بات 
اَلْکَلِمَتہُ الطَّیِّبَتہُ صَدَقتہُ
ترجمہ؛
اچھی بات صدقہ ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں