رسولﷺ کی اطاعت اور اتباع تو امت پر فرض ہونا چاہیے تھا کیونکہ انبیاء کے بھیجنے کامقصد ہی اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا، لیکن حق تعالی نے ہمارے رسول مقبول کے بارے میں اسی پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ امت پر آپ کی تعظیم و توقیر اور احترام و ادب کو بھی لازم قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں جا بجا اس کے آداب سکھائے گئے ہیں ۔
چناچہ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ؛
ترجمہ: اے مومنو ! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
یعنی جس مجلس میں حضورﷺ تشریف فرما ہوں اور کوئی معاملہ پیش آئے تو آپ سے پہلے کوئی نہ بولے ،اور جب آپ کلام کریں تو سب خاموش ہو کر سنیں ، ہاں آپ ہی کسی کو جواب کے لیے حکم فرما دیں تو وہ جواب دے سکتا ہے۔اسی طرح اگر آپ چل رہے ہیں تو کوئی آپ سے اگے نہ بڑھے، کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کریں ، ہاں اگر آپ کی تصریح یا اشارے سے ثابت ہو جائے کہ آپ خود ہی کسی کو آگے بھیجنا چاہتے ہیں جیسے سفر اور جنگ کے موقع پر ایسا ہوتا تھا تو علیحدہ بات ہے ۔
اس کے بعد آگے ارشاد ہے ؛
ترجمہ: اے ایمان والو ! بلند نہ کرو اپنی آوزیں نبی کی آواز سے اونچی اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے آپس میں کھل کر بولا کرتے ہو،کبھی تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔
صحابہ کرام باوجود یہ کہ ہر وقت ہر ہال میں رسولﷺ کے شریک کار رہتے تھے اور ایسی حالت میں احترام و تعظیم کے آداب ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اس آیت کے نازل ہونے سے صحابہ کرام کا یہ حال ہو گیا کہ؛
ترجمہ: حضرت ابو بکر نے یہ عرض کیا کہ اب مرتے دم تک آپﷺ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی کسی سے سر گوشی کتا ہو۔
اور حضرت عمر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسولﷺ سے اس قدر آہستہ بولنے لگے کہ بعض اوقات دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔
اور حضرت ثابت بن قیس طبعی طور پر بہت بلند آواز تھے ، یہ آیت سن کر وہ بہت ڈرے اور اپنے گھر میں سر جھکا کر بیٹھ گئے کہ کہیں ان کے اعمال نہ ضائع ہو جا ئیں ، پھر نبیﷺ کی تسلی اور جنت کی بشارت دینے پر آپ کو سکون ملا ، اور باہر تشریف لائے ، جس کے بعد انہوں نے اپنی آواز کو پست کر لیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں