Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

پیر، 13 نومبر، 2017

کم کھانے کے دس فائدے(پہلا حصہ)




امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ بھوکے رہنے میں دس فائدے  حاصل ہوتے ہیں ۔
پہلا فائدہ؛
پہلا فایدہ یہ ہے کہ دل کی صفائی اس سے حاصل ہوتی ہے۔طبیعت تیز ہو جاتی ہے۔ بصیرت بڑھ جاتی ہے، اس لئے کہ پیٹ بھر کر کھانے سے طبیعت میں بلاوت آتی ہے اور دل کا نور جاتا رہتا ہے ۔معدے کے بخارات دماغ کو گھیر لیتے ہیں جس کا اثر دل پربھی پڑتا ہے ، کہ وہ فکر میں دوڑنے سے عاجز ہو جاتا ہے ،بلکہ کم عمر بچہ اگر زیادہ کھانے لگے تو اس کا حافظہ بھی خراب ہو جاتا ہے، زہن بھی کند ہو جاتا ہے۔
حضرت شبلیؒ فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے جس دن بھوکا رہا، میں نے اپنے اندر عبرت اور حکمت کا ایک دروازہ کھلا ہوا پایا، اسی وجہ سے حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت ہے کہ بیٹا جب معدہ بھر جاتاہے تو فکر سو جاتا ہے اور حکمت گونگی ہو جاتی ہے اور اعضاء عبادت سے سست پڑ جاتے ہیں۔ابو یزیدبسطامیؒ فرماتے ہیں کہ بھوک ایک ابر ہے ، جب آدمی بھوکا ہوتا ہے تو وہ ابر دل پر حکمت کی بارش کرتا ہے ۔
دوسرا فائدہ؛
دوسرا فائدہ دل کا نرم ہونا  ہے  جس سے ذکر وغیرہ کا اثر دل پر ہوتا ہے ، بسا اوقات آدمی بڑی توجہ سےذکر کرتا ہے لیکن دل اس سے لذت حاصل نہیں کرتا ، اور نہ اس سے متاثر ہوتا ہے ۔ اور جس وقت دل نرم ہوتا ہے تو ذکر میں بھی لذت آتی ہے اور دعاء اور مناجات میں بھی مزہ آتا ہے۔
ابو سلیمان دارانی کہتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ عبادت میں مزہ جب آتا ہے جب میرا پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر کو لگ جائے۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ آدمی حق تعالی شانہُ کے اور اپنے سینے کے درمیان ایک جھولی کھانے کی کر لیتا ہے ، پھر یہ بھی چاہتا ہے کہ اللہ تعالی سے مناجات کی حلاوت بھی نصیب ہو۔(پیٹ بھرنے کو فقیر کی جھولی  سے تشبیہ دی ہے)۔
تیسرا فائدہ؛
تیسرا فائدہ یہ ہے  کہ آدمی میں عاجزی ،مسکنت پیدا ہوتی ہے اور اکڑ مکڑ جاتی رہتی ہے ، جو سر کشی اور اللہ تعالی شانہٗ سے غفلت کا سرچشمہ ہے ۔ نفس کسی چیز سے بھی اتنا زیر نہیں ہوتا جتنا بھوکا رہنے سے ہوتا ہے ۔ اور جب تک آدمی اپنے نفس کی ذلت اور عاجزی نہیں دیکھتا اس وقت تک اپنے مولا کی عزت اور اس کا غلبہ نہیں دیکھ سکتا ۔ آدمی کو چاہیے کہ کثرت سے بھوکا رہے تاکہ ذوق سے اپنے مولا کی طرف متوجہ رہے۔ یہی وجہ ہے جب حق تعالی شانہُ نے حضورﷺ پر پیش فرمایا  کہ مکہ مکرمہ کی ساری زمین سونے کی کر دی جائے تو حضورﷺ نے عرض کیا کہ یا اللہ یہ نہیں بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھاؤں۔ تاکہ جس دن بھوکا رہوں تو صبر کروں  اور تیری طرف عاجزی کرو ں  اور جس دن کھاؤں ، اس دن تیرا شکر  ادا کروں۔
چوتھا فائدہ؛
  چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اہلِ مصیبت اور فاقہ زدوں سے غفلت پیدا نہیں ہوتی۔ پیٹ بھرے آدمی کو بلکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ بھوکوں اور محتاجوں پر کیا گزر رہی ہے۔
حضرت یوسفؑ سے کسی نے عرض کیا کہ زمین کے خزانے توآپ کے قبضے میں ہیں پھر بھی آپ بھوکے رہتے ہیں ، فرمایا مجھے یہ ڈر ہے کہ خود پیٹ بھر لینے سے میں کہیں بھو کوں کو نہ بھول جاؤں۔اور بھوکے پیاسے رہنے سے قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کی یاد بھی تازہ ہوتی ہے، اللہ تعالی شانہُ کے عذاب کا خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔یہ بھی یاد آجاتا ہے کہ بھوک اور پیاس کی شدّت میں جہنم میں کیا کھانا ملے گا ، جو حلق میں اٹک جائے گا ۔اور پینے کو کیا ملے گا ، جہنمیوں کے زخموں کا لہو اور پیپ۔
پانچواں فائدہ؛
پانچواں فائدہ جو اصل اور اہم ہے ، گناہوں سے بچنا ہے ۔ کہ پیٹ بھرنا ہی ساری شہوتوں کی جڑ ہے ۔ اور بھوکا ہر قسم کی شہوت کا توڑ ہے ۔ اور آدمی کے لیے بڑی سعادت ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھے اور سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ اس کا نفس اس پر قابو پا لے۔
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ اپ بڑھاپے میں اپنے بدن کے خبر گیری نہیں کرتے(کچھ طاقت اور قوت کی چیزیں کھانے کی ضرورت  ہے) وہ فرمانے لگے یہ نفس نشاط کی طرف بڑی تیزی سے چلنے والا ہے ، مجھے یہ ڈر ہے کہیں مجھے کسی گناہ کی مصیبت میں نہ پھانس دے۔ اس لیے میں اس کو مشقت میں ڈالے رکھوں ، یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ وہ مجھے  کسی گناہ  کی ہلاکت میں ڈال دے ۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سب سے پہلی بدعت جو حضورﷺ کے بعد پیدا ہوئی ، وہ پیٹ بھر کر کھانے  کی ہے۔ جب آدمیوں کے پیٹ بھر جاتے ہیں تو ان کے نفوس دنیا کی طرف جھکنے لگتے ہیں ۔ یہ فائدہ جو زکر کیا جا رہا ہے ایک ہی فائدہ نہیں بلکہ فوائد کا خزانہ ہے۔


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں