حسنِ اخلاق جس انسان کی سرشت میں شامل ہو کر اس کے جسم و روح کا جز وِ لا ینفک بن جائے وہ ہمیشہ سہل خُو، رقیق القلب ،نرم پہلو اور متحمل مزاج رہتا ہےاور آدمی تو آدمی حیوانات و جمادات کے ساتھ بھی اس کا رویہ مشفقانہ اور حسنِ سلوک پر مبنی ہوتا ہے۔
رسول اللہ صحابہ اکرم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ مسلمانوں نے ایک مقام پر کیا۔ آپ قضائے حاجت کیلئے گئے۔ چند صحابہ ایک جُھنڈی میں داخل ہوئے ۔ انھیں ایک چڑیا نظر آئی جس کے ساتھ دو بچے بھی تھے ۔ اُنھوں نے دونوں بچے اُٹھا لئے۔ چڑیا اُن کے سروں پر اُڑنے اور پھڑپھڑانے لگی۔ نبی اکرم تشریف لائے اور آپ نے یہ منظر دیکھا تو دریافت کیا
اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کر دیجئیے ۔
ایک دن رسول اللہ نے چونٹیوں کا جلا ہوا دیکھا تو پوچھا
"اسے کس نے آگ لگائی ؟"
ایک صحابی بولے' میں نے۔
"آگ کے رب کے علاوہ کوئی آگ کا عذاب دے، یہ مناسب نہیں ۔
آپ نے ناراض ہو کر فرما یا۔
رسول اللہ کی نرم جوئی ہی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ آپ وضو کرتے اور بلّی آجاتی تو آپ برتن اس کے آگے کر دیتے، وہ سیر ہو کر پیتی اور آپ اُس کے جُھو ٹے پانی سے وضو کرتے۔
اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف پہنچائی ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کر دیجئیے ۔
ایک دن رسول اللہ نے چونٹیوں کا جلا ہوا دیکھا تو پوچھا
"اسے کس نے آگ لگائی ؟"
ایک صحابی بولے' میں نے۔
"آگ کے رب کے علاوہ کوئی آگ کا عذاب دے، یہ مناسب نہیں ۔
آپ نے ناراض ہو کر فرما یا۔
رسول اللہ کی نرم جوئی ہی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ آپ وضو کرتے اور بلّی آجاتی تو آپ برتن اس کے آگے کر دیتے، وہ سیر ہو کر پیتی اور آپ اُس کے جُھو ٹے پانی سے وضو کرتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں