Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

پیر، 30 اکتوبر، 2017

اُنھیں گڑھے سے باہر نکالیں۔






کیا آپ ی زندگی میں کبھی ایسا پُر پیچ لمحہ بھی آیا ہےجب  کسی شخص نے بھری محفل میں کوئی تیکھی بات کہہ کر آپ کو زچ کر دیا ہو؟ یا کسی نے آپ کے لباس ، آپ کی بات ،آپ کے انداز کا مزاق اُڑایا جسے  سن کر آپ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے؟ اس پریشان کن حال میں کسی آدمی نے آپ کا دفاع کیا  جسے آپ نے اس کا عظیم احسان جانا، گویا آپ کو گہرے گڑھے میں دھکا دیا گیا اور اس نے آ گے بڑھ کر آپ کا دامن پکڑ لیا  اور  گہرے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔
آپ لوگوں نے ایسا طرز عمل اختیار کر کے دیکھیے۔ آپ کو اس رویے کی جادوئی تاثیر کا اندازہ ہو گا۔ آپ اپنے دوست  کسی دوست کے ہاں جاتے ہیں ،اس کا چھوٹا بیٹا کھانے کی ٹرے لیے آتا ہے۔ جلدی میں کھانے کی ٹرے گرتے گرتے بچتی ہے۔ اس کا باپ غصے سے اس کے طرف دیکھتا ہے اور چلّا کر کہتا ہے؛
اتنی جلدی کس بات کی؟ 
کتنی بار میں نے تمہیں سمجھایا ہے؟ 
کب عقل آئے گی؟
بچے کا چہرہ خوف و شرم کے احساس سے پیلا پڑ جاتا ہے۔
آپ اس صورتِ حال میں بچے کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہتے ہیں؛
نہیں ، ماشااللہ، یہ تو بہت بہادر اور عقل مند ہے۔ شاید اس نے کسی وجہ سے جلدی کی ہو۔
اللہ اکبر ! وہ بچہ آپ کے ان چند جملوں کو کتنا بڑا احسان مانے گا، آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ چھوٹے تو چھوٹے ہیں، بڑوں سے اس طرز عمل کے  اس سے بھی زیادہ دورس نتائج برآمد ہوتے ہیں۔آپ کا  کوئی رفیق کار  دفتر کی ماہانہ میٹنگ میں سنگ ہائےمکامت کی بارش بھیگتاہے تو آپ اس کے لیے تعریف کے چند بول کہہ دیں۔
یا گھر کے سب افراد کسی چھوٹی موٹی غلطی کی وجہ سے  آپ کےچھوٹے بھائی پر برستے ہیں تو آپ  اس کی ستائش میں چند جملے ضرور کہیں۔ یوں اس کے دل کا بوجہ ہلکا کرنے میں آپ اس کے مدد گار ثابت ہوں گے۔ ایک شخص نے  بر سرِ عام  ایک نوجوان کو یہ سوال کر کے پریشان کر دیا؛
ہاں بھئی ، میاں صاحبزاے! یو نیورسٹی سے کتنے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں آپ نے؟
 اس سوال پر نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ میں نے نرمی سے یہ کہہ کر اس کی جان  چھڑائی؛
کیوں جی!آپ اس کے نمبروں کے بارے میں کیوں پوچھتے ہیں ؟ کوئی رشتہ دیکھ رکھا ہے اس کے لیے؟ یا کوئی ملازمت ہے آپ کے نظر میں ؟
میرا سوال سن کر سب ہنس پڑے اور بات آئی گئی ہو گئی۔
 لوگوں کی محبت حا صل کرنے کے چند مواقع ہوتے ہیں جن سے ہوشیار لوگ بہت فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
 کسی شاعر نے کہا تھا؛
اِذَا  ھَبَّتْ  رِیاَ حُکَ  فاغْتَنِمْھَا       فُعُقّْبی  کُلِّ   خَا فِقَتہِِ  سُکُونُ
جب تمھاری ہوائیں چلتی رہیں تو انھیں غنیمت جانو کیونکہ ہر ہوا بالا آخر ساکن ہو جاتی ہے۔
عبداللہ بن عمر  رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے ۔ اس دونوں کا گزر ایک درخت کے پاس سے ہوا ۔



 نبی ﷺ نے عبداللہ سے کہا درخت پر چڑھو اور میرے لیے مسواک اُتارو ۔ ابنِ مسعود جو چھریرے بدن کے نوجوان تھے ، درخت پر چڑھے اور مسواک اتارنے لگے۔ ہواآئی  اور  ان کا کپڑا ذرا وپر اُٹھ گیا جس سے اُن کی پتلی پتلی پنڈلیاں نظر آنے لگیں۔ آس پاس  کے کھڑے لوگ ان کی دبلی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے۔ رسول ﷺ نے دریافت کیا؛ 
 آپ لوگ کیوں ہنستے ہیں؟
 کیا اس نوجوان کی دبلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر ہنسی آ رہی ہے؟
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ دونوں پنڈلیاں میزان کے اُحد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہیں۔
 عبداللہ بن مسعود کے جزبات و احساسات کیا ہوں گے جب لوگ ان پر ہنسے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا دفاع کرتے ہوئے تعریفی کلمات کہے؛؛
نقطہ نظر  
لوگوں کے محبت اور توجہ حاصل کرنے کے چند مواقع ہوتے ہیں جن سے بیدار مغز لوگ ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں