وہ ہائرسیکنڈری اسکول کے آخری سال کےطلبہ کو ریاضی کا مضمون پڑھاتا تھا۔ وہ چند دنوں سےبعض طلبہ کو نوٹ کر رہا تھا کہ اُن کا سبق میں دھیان نہیں رہا اور وہ بد محنت ہوتے جا رہے ہیں۔ اس نے اُن طلبہ کا قبلہ درست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک دن وہ اپنا پیریڈ لینے کے لیے کمرہ جماعت میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا:"تمام طلبہ کتابیں ایک طرف رکھیں اور کاغذ قلم نکال لیں"۔
طلبہ نے پوچھا : کیوں ،جناب؟"ٹیسٹ" ہنگامی ٹیسٹ۔
استاد نے پر جوش انداذ میں کہا ۔
طلبہ پہلے تنگ پڑے ،پھر کھسر پھسر کرتے ہوۓ استاد صاحب کی ہدایت پر عمل کرنے لگے۔ طلبہ میں بڑے ڈیل ڈول کا ایک بے وقوف طالب علم بھی تھا جہ نہایت بد مزاج، اکھڑاور غصیلا تھا۔ اس نے چلاّ کر کہا:"جناب!ابھے ہم ٹسیٹ نہیں دینا چاہتے۔ پہلے ہم اگلے پچھلے اسباق دہرالیں، پھر آپ خوشی سے ٹیسٹ لیجیے گا۔ جب ہمیں کچھ یاد نہں تو کس چیز کا ٹیسٹ دیں گے"؟
استاد صاحب اس لڑکے کی بات سنُ کر اشتعال میں آ گۓ۔ انھوں نے شعلہ بار ہو کر کہا: " تمھاری مرضی نہیں چلے گی۔ ٹیسٹ ہر ہال میں دینا پڑے گا۔ سمجھے؟! تم ٹیسٹ نہیں دینا چاہتے تو کلاس سے نکل جاؤ"۔
اس پر طالب علم بھی طیش میں آ گیا۔"آپ باہر نکل جائیں۔" اس پر طالب اس نے بلندآواز میں کہا۔
استاد صاحب اس کا گستاخانہ پن دیکھ کر سٹپٹا اٹھے۔ وہ طالب علم کو کوستے ہوۓ اس کی جانب بڑھے:"اوبے ادب،ارےاو بے حیا، گستاخ، کمینے، بے غیرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
طالب علم بھی اپنی نشست سے اٹھ کھٹرا ہوا۔ اُس کے بعد وہ کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہۓ تھا۔ طالب علم اور استاد دونوں گتھم گتھا ہوگۓ۔
بات انتظامیہ تک پہنچی۔انہوں نے سزا کے طور پر طالبعلم کو دو سال پیچھے کر دیا اور تحریری بیان لیا گیا کہ آئندہ وہ استاد کا احترام ملحوظ رکھے گا۔یہ تو طالب علم کا انجام تھا۔ استاد صاحب اس کےبعد ہر چھوٹے بڑے کی گفتگو کا موضوع بن گۓ۔ جماعتوں میں ان پر تبصرے کۓ جا نے لگے۔ انھوں نے اس صورتحال سے تنگ آ کر وہ اسکول چھوڑ دیا۔
ایک اور استاد کو بھی یہی مشکل پیش آئی ۔ تا ہم اس نے نہایت خوش اسلوبی سے مسلۓ کا حل نکال لیا۔اس نے بھی ایک دن کلاس میں آکر اچانک حکم صادر کیا:" سب طلبہ کاغذ قلم نکال لیں۔ٹیسٹ ہو گا۔
یہاں بھی ایک طالب علم موجود تھا جو ہٹ دھرم اور تُند مزاج تھا۔ اس نے چیخ کر کہا: " جنا ب ! آپ کی مرضی نہیں چلے گی ۔ ٹیسٹ اپنے وقت پر ڈسپلن کے مطابق ہو گا"۔
استاد صاحب جو صلے کا پہاڑ تھے، جانتے تھے کہ مشتعل مزاج آدمی سےسختی کے ساتھ نمٹنا بے وقوفی ہے۔ وہ مسکراۓاور طالب علم کی طرف دیکھ کر کھا :"مطلب یہ کہ آپ ٹیسٹ نہیں دینا چاہتے"؟
وہ پھر چلاّیا :"نہیں"۔
استادصاحب نہایت اطمینان سے بولے:"ٹھیک ہے۔ جو ٹیسٹ نہیں دینا چاہتا ہم اس سے ڈسپلن کے مطابق پیش آئیں گے"۔
لڑکو تم لکھو: پہلا سوال: حسبِ ذیل مساوات کا نتیجہ لکھیں:
15+a=y+x
یوں استاد صاحب سوال لکھوانے لگے۔ ضدی طالب علم سے نہ رہا گیا۔ اور وہ طیش میں آ کر بولا:"میں نے آپ سے کہا ہے "کہ میں ٹیسٹ نہیں دینا چاہتا
استاد صاحب اسے دیکھ کر مسکراۓاور کہا:"آپ سے ٹیسٹ کون لے رہا ہے؟ آپ آزاد ہیں۔ ہم آپ سے امتحان نہیں لیتے۔"
اب مزید بھڑکنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ طالب علم سکون سے بیٹھ گیا، پھر اس نے کاغذ قلم نکالا اور اپنے ہم جماعتوں کی طرح وہ بھی سوال لکھنے لگا۔ بعد میں انتظامیہ کی طرف سے اس طالب علم کی بد مزاجی پر مواخذہ بھی کیا گیا۔
یہ فرضی واقعہ میرے ذہن میں آیا تو میں نے سوچا کہ اس جیسی پیچیدہ صورت ِحال سے نمٹنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ میں غصے کی آگ بھڑکانے اور اسےٹھنڈا کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کرنے لگا۔ یہ واقعہ ہے کہ مشتعل مزاج آدمی کو آڑے ہا تھوں لینے کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے اور اس سے اختلاف بجاۓ کم ہونے کے ، شدّت اختیار کر جاتا ہے۔ آگ کا مقابلہ آگ سے کیا جاۓ یا آگ کو آگ سے بجھانے کے کوشش کریں تو شرارے بڑھتے اور آگ کی لپٹ میں تیزی ہی آتی ہے۔اور سرد مہری کے مقابلے میں بھی سرد مہری ہو تو الجھنوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔، اس لۓ لوگوں سے آپ کا سبھاؤ امیرالمومنین معاویہ کی رسیّ کے مانند ہونا چاہیۓ۔
امیرالمومنین معاویہ سے پو چھا گیا کہ آپ بیس برس امیر(گورنر) کے عہدے پر فائز رہے، پھر آپ کو خلیفہ ہوۓ بھی بیس برس ہونے کو ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ آپ نے لوگوں پر حکومت کی، اس کا راز آخر کیا ہے؟ وہ کیا طریقہ ہے جسے اپنا کر آپ اتنے بڑے حکمران بنے رہے؟
وہ کہنے لگے: " میرے اور رعایا کے درمیان ایک رسیّ ہے جس کا ایک سرا میرے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا اُن کے ہاتھ میں ہے۔ جب وہ اُدھر سے رسیّ کھینچتے ہیں تو میں اِدھرسے ڈھیلی کر دیتا ہوں تاکہ رسیّ ٹوٹنے نہ پاۓاور جب اُدھر سے ڈھیل دیتے ہیں تو میں ادھر سے رسیّ کھینچ دیتا ہوں۔"
معاویہ کا طریقہ واقعی لا جواب تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دو مشتعل مزاج میاں بیوی کبھی پرُ سکون زندگی نہیں گزار سکتے۔ اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ دو مغلوب الغَضَب آدمیوں کی دوستی زیادہ دیر قائم رہ سکے۔
ایک بار میں نے جیل میں لیکچر دیا۔ لیکچر کا اہتمام خاص طور پر قتل کے مجرمان کے لے کیا گیا تھا۔ لیکچر اختتام کو پہنچا تو سب لوگ اپنی اپنی کواب گاہون میں چلے گۓ۔ ایک آ دمی شکرہ ادا کرنے میری طرف آیا۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوۓ کہا کہ وہ مجرمانِ قتل کےاس سیکشن میں تعلیمی سرگرمیوں کا نگران ہے۔میں نے اُس سے دریافت کیا کہ قتل کی زیادہ تر وارداتون کے پیچھے اصل محرّک کیا ہوتا ہے؟
اس نے بلا توقف جواب دیا : "غصہ۔"
"واللہ ! یا شیخ! ان میں سے بعض قاتلوں نے شاپنگ سنٹر یا گیس اسٹیشن پر چند روپوں کی خاطر غصے میں آ کر قتل کا ارتکاب کیا ہے۔"
اس کی بات پر مجھے نبی کے حدیث یاد آ گئی۔ آپ نے فرمایا تھا:
((لَیسَ الشَّدِیدُ بِا لصُّرَعَۃِ، اِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہ عِنْدَ الْغَضَبِ))
ترجمہ:"طاقتور وہ نہیں جو ہر ایک کو پچھاڑ دے ۔ طاقتور دراصل وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھےّ۔"
جی ہاں ! بہادر وہ نہیں جو قوی ہیکل اور عظیم البُحّثہ ہو اور جس سے بھی لڑے اسے نیچا دکھا دے، بلکہ بہادر وہ ہے جو یہ جانتا ہو کہ پیچیدہ صورتِ حال سے کیونکر نمٹنا ہے۔
رسول اللہ نے فرمایا:
((لاَ یَقْضِ الْقَاضِی بَیْنَ اثْنَیْنِ وَ ھُوَ غَضْبَانُ))
ترجمہ:"قاضی دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔"
آپ نے حکم دیا کہ مسلمان اپنے نفس کو تحمّل اور برداشت کا خو گر بنائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّمَا الْحِلْمُ بِا لتَّحَلُّمِ))
ترجمہ:
" برداشت ، برداشت کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔"
جی ہاں ! پہلے پہل آپ غصے پر قابو پا ئیں گے تو آپ کو سو فیصد محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن دوسری، تیسری اور پھرچوتھی بار آپ کا زور بہت کم لگے گا اور آپ منٹوں میں غصے پر قابو پا لیں گے۔ یوں آیستہ آیستہ عادت ہو جائے گی اور تحمّل و بر داشت آپ کی فطرت کا حصہ بن جائیں گے۔
مساوات
مشتعل +مشتعل=دھماکہ
اس پر طالب علم بھی طیش میں آ گیا۔"آپ باہر نکل جائیں۔" اس پر طالب اس نے بلندآواز میں کہا۔
استاد صاحب اس کا گستاخانہ پن دیکھ کر سٹپٹا اٹھے۔ وہ طالب علم کو کوستے ہوۓ اس کی جانب بڑھے:"اوبے ادب،ارےاو بے حیا، گستاخ، کمینے، بے غیرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
طالب علم بھی اپنی نشست سے اٹھ کھٹرا ہوا۔ اُس کے بعد وہ کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہۓ تھا۔ طالب علم اور استاد دونوں گتھم گتھا ہوگۓ۔
بات انتظامیہ تک پہنچی۔انہوں نے سزا کے طور پر طالبعلم کو دو سال پیچھے کر دیا اور تحریری بیان لیا گیا کہ آئندہ وہ استاد کا احترام ملحوظ رکھے گا۔یہ تو طالب علم کا انجام تھا۔ استاد صاحب اس کےبعد ہر چھوٹے بڑے کی گفتگو کا موضوع بن گۓ۔ جماعتوں میں ان پر تبصرے کۓ جا نے لگے۔ انھوں نے اس صورتحال سے تنگ آ کر وہ اسکول چھوڑ دیا۔
ایک اور استاد کو بھی یہی مشکل پیش آئی ۔ تا ہم اس نے نہایت خوش اسلوبی سے مسلۓ کا حل نکال لیا۔اس نے بھی ایک دن کلاس میں آکر اچانک حکم صادر کیا:" سب طلبہ کاغذ قلم نکال لیں۔ٹیسٹ ہو گا۔
یہاں بھی ایک طالب علم موجود تھا جو ہٹ دھرم اور تُند مزاج تھا۔ اس نے چیخ کر کہا: " جنا ب ! آپ کی مرضی نہیں چلے گی ۔ ٹیسٹ اپنے وقت پر ڈسپلن کے مطابق ہو گا"۔
استاد صاحب جو صلے کا پہاڑ تھے، جانتے تھے کہ مشتعل مزاج آدمی سےسختی کے ساتھ نمٹنا بے وقوفی ہے۔ وہ مسکراۓاور طالب علم کی طرف دیکھ کر کھا :"مطلب یہ کہ آپ ٹیسٹ نہیں دینا چاہتے"؟
وہ پھر چلاّیا :"نہیں"۔
استادصاحب نہایت اطمینان سے بولے:"ٹھیک ہے۔ جو ٹیسٹ نہیں دینا چاہتا ہم اس سے ڈسپلن کے مطابق پیش آئیں گے"۔
لڑکو تم لکھو: پہلا سوال: حسبِ ذیل مساوات کا نتیجہ لکھیں:
15+a=y+x
یوں استاد صاحب سوال لکھوانے لگے۔ ضدی طالب علم سے نہ رہا گیا۔ اور وہ طیش میں آ کر بولا:"میں نے آپ سے کہا ہے "کہ میں ٹیسٹ نہیں دینا چاہتا
استاد صاحب اسے دیکھ کر مسکراۓاور کہا:"آپ سے ٹیسٹ کون لے رہا ہے؟ آپ آزاد ہیں۔ ہم آپ سے امتحان نہیں لیتے۔"
اب مزید بھڑکنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ طالب علم سکون سے بیٹھ گیا، پھر اس نے کاغذ قلم نکالا اور اپنے ہم جماعتوں کی طرح وہ بھی سوال لکھنے لگا۔ بعد میں انتظامیہ کی طرف سے اس طالب علم کی بد مزاجی پر مواخذہ بھی کیا گیا۔
یہ فرضی واقعہ میرے ذہن میں آیا تو میں نے سوچا کہ اس جیسی پیچیدہ صورت ِحال سے نمٹنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ میں غصے کی آگ بھڑکانے اور اسےٹھنڈا کرنے کے مختلف طریقوں پر غور کرنے لگا۔ یہ واقعہ ہے کہ مشتعل مزاج آدمی کو آڑے ہا تھوں لینے کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے اور اس سے اختلاف بجاۓ کم ہونے کے ، شدّت اختیار کر جاتا ہے۔ آگ کا مقابلہ آگ سے کیا جاۓ یا آگ کو آگ سے بجھانے کے کوشش کریں تو شرارے بڑھتے اور آگ کی لپٹ میں تیزی ہی آتی ہے۔اور سرد مہری کے مقابلے میں بھی سرد مہری ہو تو الجھنوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔، اس لۓ لوگوں سے آپ کا سبھاؤ امیرالمومنین معاویہ کی رسیّ کے مانند ہونا چاہیۓ۔
امیرالمومنین معاویہ سے پو چھا گیا کہ آپ بیس برس امیر(گورنر) کے عہدے پر فائز رہے، پھر آپ کو خلیفہ ہوۓ بھی بیس برس ہونے کو ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ آپ نے لوگوں پر حکومت کی، اس کا راز آخر کیا ہے؟ وہ کیا طریقہ ہے جسے اپنا کر آپ اتنے بڑے حکمران بنے رہے؟
وہ کہنے لگے: " میرے اور رعایا کے درمیان ایک رسیّ ہے جس کا ایک سرا میرے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا اُن کے ہاتھ میں ہے۔ جب وہ اُدھر سے رسیّ کھینچتے ہیں تو میں اِدھرسے ڈھیلی کر دیتا ہوں تاکہ رسیّ ٹوٹنے نہ پاۓاور جب اُدھر سے ڈھیل دیتے ہیں تو میں ادھر سے رسیّ کھینچ دیتا ہوں۔"
معاویہ کا طریقہ واقعی لا جواب تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دو مشتعل مزاج میاں بیوی کبھی پرُ سکون زندگی نہیں گزار سکتے۔ اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ دو مغلوب الغَضَب آدمیوں کی دوستی زیادہ دیر قائم رہ سکے۔
ایک بار میں نے جیل میں لیکچر دیا۔ لیکچر کا اہتمام خاص طور پر قتل کے مجرمان کے لے کیا گیا تھا۔ لیکچر اختتام کو پہنچا تو سب لوگ اپنی اپنی کواب گاہون میں چلے گۓ۔ ایک آ دمی شکرہ ادا کرنے میری طرف آیا۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوۓ کہا کہ وہ مجرمانِ قتل کےاس سیکشن میں تعلیمی سرگرمیوں کا نگران ہے۔میں نے اُس سے دریافت کیا کہ قتل کی زیادہ تر وارداتون کے پیچھے اصل محرّک کیا ہوتا ہے؟
اس نے بلا توقف جواب دیا : "غصہ۔"
"واللہ ! یا شیخ! ان میں سے بعض قاتلوں نے شاپنگ سنٹر یا گیس اسٹیشن پر چند روپوں کی خاطر غصے میں آ کر قتل کا ارتکاب کیا ہے۔"
اس کی بات پر مجھے نبی کے حدیث یاد آ گئی۔ آپ نے فرمایا تھا:
((لَیسَ الشَّدِیدُ بِا لصُّرَعَۃِ، اِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہ عِنْدَ الْغَضَبِ))
ترجمہ:"طاقتور وہ نہیں جو ہر ایک کو پچھاڑ دے ۔ طاقتور دراصل وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھےّ۔"
جی ہاں ! بہادر وہ نہیں جو قوی ہیکل اور عظیم البُحّثہ ہو اور جس سے بھی لڑے اسے نیچا دکھا دے، بلکہ بہادر وہ ہے جو یہ جانتا ہو کہ پیچیدہ صورتِ حال سے کیونکر نمٹنا ہے۔
رسول اللہ نے فرمایا:
((لاَ یَقْضِ الْقَاضِی بَیْنَ اثْنَیْنِ وَ ھُوَ غَضْبَانُ))
ترجمہ:"قاضی دو آدمیوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔"
آپ نے حکم دیا کہ مسلمان اپنے نفس کو تحمّل اور برداشت کا خو گر بنائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّمَا الْحِلْمُ بِا لتَّحَلُّمِ))
ترجمہ:
" برداشت ، برداشت کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔"
جی ہاں ! پہلے پہل آپ غصے پر قابو پا ئیں گے تو آپ کو سو فیصد محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن دوسری، تیسری اور پھرچوتھی بار آپ کا زور بہت کم لگے گا اور آپ منٹوں میں غصے پر قابو پا لیں گے۔ یوں آیستہ آیستہ عادت ہو جائے گی اور تحمّل و بر داشت آپ کی فطرت کا حصہ بن جائیں گے۔
مساوات
مشتعل +مشتعل=دھماکہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں