لوگوں کے اصلاح کرنے سے پہلے اپنئ اصلاح بے حد ضروری ہے ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ تو اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور آپ وہیں کے وہیں رہیں۔ بلخصوص جب آپ کسے ایسے منصب پر فائز ہوں جہاں آپ کا کام ہدایت کاری اور توجیہ و اصلاح پر مبنی ہو تو یہ جان لیں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی نگرانی کرتی ہیں۔ آپ کی ایک ایک حرکت نوٹ کی جا تی ہے، اس لیے حتی الامکان قاعدے قانون کی پاسداری کا خیال رکھیں۔
امیرالمومنین عمر نے ایک بار لوگوں میں کپڑے تقسیم کیے۔ہر ایک کے حصے میں ایک ایک کپڑا آیا۔ جمعہ کے دن امیرالمومنین خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور یہ کہہ کر خطبے کا آغاز کیا:"اللہ نے آپ پر میری سمع و طاعت فرض کر دی ہے۔
یکایک ایک آدمی کھڑا ہوا اور بولا :"آپ کے لیے کوئی سمع
و طاعت نہیں؟
عمر نے حیرت سے پوچھا:کیوں؟
اس نے کہا:" اس لیے آپ نے ہم میں ایک ایک کپڑا تقسیم کیا ہے اور خود دو نئے کپڑے پہن رکھے ہیں۔" عمرنے یہ سنا تو نمازیوں پر نگاہ دوڑائی ۔آپ کو اپنا فرزند عبداللہ بن عمر نظر آیا۔آپ نے انھیں دیکھتے ہی کہا:" عبداللہ بن عمر! اٹھو۔
عبداللہ بن عمر اٹھ کھڑے ہوئے۔
عمر نے دریافت کیا:تم نے اپنی پوشاک مجھے نہیں دی تھی کہ اسے پہن کر خطبہ کر دوں ؟
عبداللہ بولے: جی دی تھی۔
وہ آدمی بیٹھ گیا اور بولا:اب ہم اپکی بات سنیں گے اور ما نیں گے۔
یوں بات ختم ہو گئ۔
جی ہاں! اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی نصیحت قبول کریں تو سب سے پہلے آپ اُن نصیحت قبول کرنے کیلئے تیار ہوں۔
وہ اکثر اپنی بیوی سے کہتا رہتا تھا:بچوں کا خیال رکھا کرو۔اچھا کھانا پکایاکرو۔ میں کب تک کہتا رہوں گا کہ سونے کے کمرے کو ترتیب دے دیا کرو۔
بیوی ہمیشہ وسیع الفطرفی سے جواب دیتی۔انشااللہ کر دوں گی، آپ پریشان نہ ہوا کریں۔
ایک دن بیوی نے اس سے کہا:بچوں کے امتحان ہو رہے ہیں ۔آپ انھیں تھوڑا وقت دے دیا کریں اور جلدی گھر آجایا کریں ۔
وہ چیخ کر بولا :میں اُن کے لئیے بے کار نہیں بیٹھا۔ جلدی گھر آوں یا دیر سے ،تمھیں اس سے کیا؟ تم میرے معاملات میں دخل کیوں دیتی ہو؟
اب آپ ہی بتائیے کیا اس کے بعد بھی اس کی بیوی اس کی نصیحت پر کان دھرے گی؟
آخر میں ایک ضروری بات یہ ہے کہ عقل مند اور ہوشیار آدمی گھر کی دیوار میں رخنے نہیں چھوڑتا کہ لوگوں کی نظر گھر کے اندر پڑے۔دوسرے لفظوں میں وہ لوگوں کو موقع نہیں دیتا کہ وہ اس کی ذات کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوں ۔
ایک دعوتی تنظیم نے البانیہ میں چند دعوتی خطابات کے لئے داعیوں کی جماعت مدعو کی۔البانیہ میں دعوتی مراکز کے مدیر بھی مجلس میں حاضر تھے۔اُن کے گالوں پر ایک بال بھی نیہں تھا۔ ہم حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، اس لیے کہ دستور کے مطابق داعی حضرات رسول اللہ کے طریقے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے داڑھی ، خواہ تھوڑی بہت ہی،ضرور رکھتےہیں ۔
داعیوں کے سربراہ کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں تشویش لاحق ہونا لازمی امر تھا۔
میٹنگ کا آغاز ہوا تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا: بھائیو! میں کھوسا ہوں۔ میرے چہرے پر داڑھی نہیں اُگی،اس لیے میٹنگ کے اختتام پر آپ مجھے لیکچر مت جھاڑ دیجئیے گا۔
ہم بھی اُن کی وضاحت پر خوش دلی سے مسکرا دیے اور اُن کا شکریہ ادا کیا۔
ؐاب میرے ہمراہ مدینہ منورہ چلیے اور دیکھیے کہ رسول اللہ رمضان کی راتوں میں مسجد میں اعتکاف کر رہے ہیں۔آپ کی زوجہ محترمہ صفیہ بنت حُیئ آپ سے ملنے آتی ہیں اور چند گھڑیاں ٹھہرتی ہیں۔ واپس جانے کے لیے اُٹھتی ہیں تو رسول اللہ بھی اُنھیں گھرتک چھوڑنے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
راستے میں دونوں کے قریب سے دو انصاری آدمیوں کا گزر
ہوتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہؐ خاتون کے ہمراہ ہیں تو تیزی سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رسول اللہؐ انھیں مخاطب کر کے کہتے ہیں؛
ٹھرئیے،یہ صفیہ بنت حیی ہے۔
انصاری کہتے ہیں: سبحان اللہ !یا رسول اللہ۔
آپ رسولؐ نے فرمایا۔
شیطان انسان میں خوں کی طرح دوڑتا ہے ۔ مجھے خدشہ ہوا کہیں وہ آپ کے دلوں میں شر نہ ڈال دے۔
قیمتی بات
اپنا دل دوسروں کے متعلق اور دوسروں کا دل اپنے بارے میں صاف رکھنے کی کوشش کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں