Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

بدھ، 1 نومبر، 2017

اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور تکبر سے بچیں۔



معافی مانگ لیں

بہت سی مشکلات ایسی ہیں جن کی وجہ سے دو بھائیوں کی عداوت ایک دو سال ،کئی برس یا ساری عمر جاری رہتی ہے۔ اس مسلئے کا آسان طرین حل یہ ہے کہ ایک بھائی دوسرے بھائی سے کہہ دے کہ غلطی میری تھی۔ میں معذرت کرتا ہوں۔

نفرت کی چنگاریاں بجھانے میں جلدی کیجئے، قبل اس سے کہ ان چنگاریوں سے آگ بھڑک اُٹھےاور سب کچھ جلا کر خاک کر دے۔
مجھے افسوس ہے۔
قصور میرا تھا۔
آپ کا دل صاف ہے۔
ہم انکسار اور تواضع کا مظاہرہ کرتےہوئے لوگوں سے ایسے الفاظ کہنا سیکھ جائیں تو زندگی کتنی آسان اور خوش گوار ہو جائے۔
دو جلیل القدر صحابہ ابو ذر اور بلال کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ ابوذر نے غصے میں سیدنا بلال کو ابن السواء( کالی کلوٹی حبشی عورت کا بیٹا ) کہہ دیا۔ بلال  نے اس کی شکایت رسول ﷺ سے کی۔آپ  نے ابوذر کو بلایا اور دریافت کیا؛
 کیا آپ نے بلال کو گالی دی ہے؟
ابوذر نے کہا: دی ہاں ، دی ہے۔
فرمایا؛
تو کیا آپ نے اس کی والدہ کا ذکر کیا ہے؟
کہا: یا رسول اللہ! جو شخص لوگوں سے گالم گلوچ کرتا ہے، اس کے والدین کا ذکر کیا ہی جاتا ہے۔
آپ نے فرمایا؛
آپ میں جاہلیت ہے۔
ابوذر کا چہرہ پھیکا پڑ گیا، بولے : کیا بڑھاپے کی اس عمر میں بھی؟
آپ ﷺ نے فرمایا؛
ہاں ۔
پھر رسول نے ماتحتوں سے برتاؤ کا طریقہ سمجھاتے ہوئے فرمایا؛
جنھیں اللہ نے تمھارے ماتحت کیا وہ تمھارے بھائی ہی ہیں۔ جس کسی کا بھائی اس کا ما تحت ہو وہ اسے کھانا کھلائے اور اپنا لباس پہنائے، اس کے بس سے باہر کام نہ کہے ، اگر کوئی چارہ نہ ہو تو ایسے کام میں اس کی مدد کرے۔
یہ سن کر ابوذر جا کر بلال سے ملے ، معذرت کی اور بلال کے سامنے زمین پر بیٹھ کر اپنا گال ننگے فرش پر رکھااور کہا: بلال! اپنا پاؤں میرے گال پر رکھ دو۔



صحابہ کرام کا، رسول ﷺ کی تربیت کے باعث ، یہی مزاج تھا۔ وہ نفرت کی آگ بھڑکنے سے پہلے اسے بجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر بلفرض آگ مزید بھڑک اُٹھتی تو اسے مزید پھیلنے سے روکتے۔
ابو بکر اور عمر کے درمیان ذرا تلخ کلامی ہو گئی۔ عمر ناراض ہو کر چل دیے۔
ابو بکر کو ندامت ہوئی اور خدشے کے پیشِ نظر کہ معاملہ بڑھ جائے گا، عمر کے پیچھے پیچھے گئے اور کہتے رہے:عمر! مجھے معاف کر دو۔
عمر نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ابوبکر معذرت کرتے بے چارے پیچھے پیچھے جاتے رہے۔ عمر گھر پہنچے اور اندر جا کر دروازہ بند کر لیا۔ ابوبکر رسول ﷺ کی طرف گئے۔ آپ نے انھیں دور سے آتے دیکھا ، چہرے کا رنگ بدلا ہوا پایا تو فرمایا؛
لو! آپ کا یہ صاحب تو کسی مشکل میں گرفتار ہے۔
ابو بکرپاس آئے اور خاموشی سے بیٹھ گئے۔ چند لمحےہی گزرے ہوں گے کہ عمر کو بھی اپنے رویے پر ندامت  کا احساس ہوا۔ اُن لوگوں کے دل روشن تھے۔
عمر بھی گھر سے نکلے اور کشاں کشاں رسولﷺ کی محفل میں چلے آئے۔ سلام کیا اور آپ کی ایک جانب بیٹھ گئے۔ساری بات بتائی کہ کیسے انھوں نے ابو بکر سے بے رُخی برتی اور اُن کی معذرت قبول نہ کی۔رسول ﷺ کو غصہ آگیا ۔ ابوبکر نے آپ کے چہرے ناراضگی کے آثار دیکھے تو کہنے لگے؛
یارسول اللہ! واللہ! میرا ہی قصور تھا۔ غلطی میری ہی تھی۔
یوں وہ عمر کا دفاع کرنے لگے۔
آپ ﷺ نے فرمایا؛
کیاآپ میری خاطر میرے صاحب کا پیچھا چھوڑتے ہیں؟ کیا آپ میری خاطر میرے صاحب کا پیچھا چھوڑتے ہیں؟ میں نے کہا تھا: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ آپ لوگوں نے جواباََ کیا تھا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ اور ابو بکر نے کہا تھا آپ سچ کہتے ہیں۔
غلطی کا اعتراف کرنے سے آدمی چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ انکسار اور تواضع کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان ہٹ دھرمی کے بجائے غلطی کا اعتراف کرنا سیکھے۔
حدیث میں آیا ہے؛
جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے ، اللہ اسے بلند کر دیتا ہے۔
                       ایک نظر اِدھر بھی
               اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بڑا پن ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں