- میں نے کہیں پڑھا تھاکہ برطانیہ میں ایک مسلم نوجوان نے اخبار میں کسی کمپنی کا اشتہار دیکھا کہ انھیں سکیورٹی ملازمین کی ضرورت ہے۔ وہ نوجوان انٹرویو دینے آیا۔ مسلم و غیر مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد انٹرویو دینے آئی تھی۔ وہ یکے بعد دیگرے کمرے میں جاتے رہے۔جو آدمی انٹر ویو دے کر باہر نکلتا اس سے پوچھتے کہ انٹر ویو لینے والوں نے کیا کیا سوال کیے؟ اور اس نے کیا کیا جواب دیا؟ ایک سوال سب سے پوچھا جا رہا تھا کہ آ پ روزانہ شراب کے کتنے گلاس پیتے ہیں؟
ایک مسلم نوجوان کی باری آئی تو اس سے بھی پے در پے کئی سوال پوچھے گئے۔جب انھوں نے پوچھا کہ آپ کتنی پیتے ہیں ؟ تو نوجوان کو تردد ہواکہ کیا جواب دے۔کیا جھوٹ بولے اور کہے کہ وہ بھی دیگر نوجوانوں کی طرح خوب پیتا ہےتاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ یہ انتہا پسند مسلم ہے۔ یا سچ کہ دے کہ وہ مسلمان ہے اور اللہ نے اس پر شراب حرام کی ہے، اس لیے وہ شراب نہیں پیتا۔اس نے فوری طور پر سچ بو لنے کا فیصلہاور برملا کہا: میں شراب نہیں پیتا۔
انٹر ویو لینے والوں نے پوچھا: کیوں ، آپ بیمار ہیں؟
نہیں، میں مسکمان ہوں اور ہم پر شراب حرام ہے۔اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔
انھوں نے حیران ہو کر پوچھا : یعنی آپ بلکل شراب نہیں پیتے ،اختتامِ ہفتہ پر بھی نہیں ؟
اس نے جواب دیا: ہاں، میں بلکل شراب نہیں پیتا۔
وہ سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔ نتائج کا اعلان ہوا تو اس مسلم کا نام سر فہرست تھا۔
اس نے فرم میں چارج سنبھال لیا۔ چند مہینے گزرے تو اس نوجوان نے ایک روز انٹر ویو لینے والی ٹیم میں شریک ایک افسر سے پوچھا؛
آپ لوگ اس دن بار بار شراب کے بارے میں ہی کیوں پوچھ رہے تھے؟
افسر نے جواب دیا: کیونکہ ملازمت سکیورٹی کے شعبے میں تھی۔ یہاں جب بھی کوئی جوان تعینات ہوتا، ہمیں پتا چلتا لہ وہ نشا کرتا یا شراب پیتا ہے ۔ یوں وہ اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتتا اور کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑتا۔ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ شراب نہیں پیتے تو ہمیں گویا اپنی متاعِ گم گشتہ مل گئی۔ ہم نے فوراََ آپ کو بھرتی کر لیا۔
لالچ کے باوجود اصولوں پر کار بند رہنا غیر معمولی بات ہے۔ ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں اصولوں پر قائم رہنے والے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ایسے افراد جو اصولوں کے لیے جیتے اور اصولوں پر جان دیتے ہوں ۔ہر چند اُنھیں ہر طرح کا لالچ دیا جائے، وہ اصولوں پر ثابت قدمے کا مظاہرہ کریں۔جب آپ صحیح راستے پر چلیں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہیں گے تو اصول پسند لوگ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ایک آدمی کا رشوت قبول نہ کرنا اس کے رشوت خور رفقائے کار کے لیے یقیناََ نا گوار ہوتا ہے۔
روایت میں ہے کہ عمر بن خطاب ایک رات گشت کر رہے تھے۔رات اندھیرے میں آپ کا گزر ایک گھر کے پاس سے ہوا ۔ آپ نے گھر سے ہنسی کھیل کی آوازیں سنی ۔چند آدمی نشے میں بول رہے تھے۔ عمر بن خطاب نے رات کے وقت گھر کا دروزہ کھٹکھٹانا مناسب نہ سمجھا ۔آپ کو خد شہ تھا کہ کہیں یہ میری غلط فہمی نہ ہو۔یہ سوچ کر کہ پہلے معاملے کی تحقیق کرنی چائیے کہ آپ نے زمین سے کوئلے کا ٹکرا اٹھایا اور دروازے پر نشانی لگا کر چلے گئے ۔
گھر کے مالک کو دروازے پر آہٹ سنائی دی تو وہ باہر نکلا۔ اسے دروازے پر کوئلے کا نشان نظر آیا ۔ اس نے امیر المومنین کو جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ سارا ماجرا سمجھ گیا ۔ اب بجائے اس کے کہ وہ آدمی دروازے پر لگی علامت مٹا دیتا اور قصہ ختم ہوتا، اس نے کوئلے کا ٹکرا اٹھایا اور آس پاس کے سب دروازوں پر نشان لگا دیے۔ گویا اس نے چاہا کہ لوگ اس کے معیار پر اُتر آئیں اور اسی کی طرح نشہ باز بن جائیں ۔ لیکن اس سے یہ نہ ہو سکا اور نہ اس نے سوچا کہ وہ لوگوں کے بلند معیار پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔
ہماری زندگی کا تجربہ ہے کہ جو عورت خاوند سے ہمیشہ جھوٹ بولتی ہے اور جھوٹ پر ہی پروان چڑھتی ہے ، اسے کوئی عورت ٹوکے اور سچائی کی نصیحت کرے تو وہ اسے بھی دل دل میں کھیچنے کی کوشش کرتی ہے اور بار بار یہی کہتی ہے : مردوں سے یہی سلوک کرنا چاہیے۔ تم ان کے ساتھ سچ بول کر گزارا نہیں کر سکتی ۔
یوں آہستہ آہستہ وہ عورت بھی جو اسے نصیحت کرنے آئی تھی، اپنے اصولوں پر انحاف کرنے لگتی ہے یا کبھی ثابت قدم بھی رہتی ہے۔
اس لیے بہادر بنئے اور اپنے اصولوں پر قائم رہیے۔ اور بلند آواز سے کہیے:نہیں ۔ خواہ آپ لوگ کیسا ہی لالچ دیں ۔ کافروں نے بھی کوشش کے تھی کہ رسول ﷺ اپنے اصولوں سے دست بردار ہو جائیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے کہا؛
((وَ دُّوْ ا لوْ تُدْھِنُ فِیُدْ ھِنُوْنَ))
ترجمہ؛
ان کی خواہش ہے کہ تو نرمی برتے تو وہ بھی نرم ہو جائیں ۔
مطلب یہ کہ کافر جو بتوں کے پجاری ہیں ، ان کے ہاں تو سرے سے اصولوں کا وجود نہیں کہ وہ ان پر کار بند رہیں، اس لیے اپنے بے بنیاد اصولوں سے دست بردار ہونا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ تم خبردار رہو،کہیں وہ تمھیں اصولوں سے انحراف کا لالچ نہ دیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں