Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

بدھ، 8 نومبر، 2017

محبوب چیز کا صدقہ کرنا


صدقہ کے فوائد



قرآن پاک میں ارشاد ہے؛
لَنْ تَنِالُو االْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔
اے مسلمانو! تم (کامل) نیکی حاصل نہ کر سکو گے،یہاں تک کہ اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تم کو خوب محبوب ہو۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ کھجوروں کے سب سے زیادہ باغ حضرت ابو طلحہ کے پاس تھے اور ان کا ایک باغ تھا جس کا نام بَیْرحَاء تھا۔وہ ان کو بہت زیادہ پسند تھا اور وہ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا ۔حضور اکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا پانی نوش فرماتے جو کہ بہت ہی بہترین پانی تھا ۔جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو ابو طلحہ آپ کے پاس حاضر ہوئےاور عرض کیا ،کہ یا رسول اللہ حق تعالٰی شانہٗ یہ ارشاد فرماتے ہیں " تم  نیکی حاصل یہ کر سکو گے یہاں تک کہ اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو" ۔اور مجھے ساری چیزوں میں سے سب سے زیادہ بِیْرحَاء محبوب ہے۔ میں اس کو اللہ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اور اللہ سے اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں ۔ آپ جہاں مناسب سمجھیں اس کو خرچ فرما دیں ۔ حجور نے فرمایا، واہ ،واہ بہت ہی نفع کا مال ہے۔ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ ابو طلحہ نے کہا  بہتر ہے اور اس کو اپنے  چچا زاد بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں میں بانٹ دیا۔
ایک اور حدیث میں ہے ۔ ابو طلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہمیرا جو باغ اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے ۔ اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا تو کسی کو اس کی خبر نہ ہو میں ایسا کرتا ۔مگر باغ ایسی چیز ہے جو مخفی نہیں رہ سکتی۔
حضرت ابنِ عمر فرماتے ہیں کہ جب مجھے اس آیت شریفہ کا علم ہوا تو میں نے ان سب چیزوں پر غور فرمایا جو اللہ جلَّ شانہٗ نے مجھے عطاکی ہیں ۔میں نے دیکھا مجھے ان سب میں سب سے زیادہ محبوب اپنی باندی مَرْ جانہ ہے۔میں نے کہا وہ اللہ کے واسطے آزاد ہے ۔اس کے بعد اگر میں اس چیز سے جس کو اللہ کے واسطے دے دیا ہو ، دوبارہ نفع حاصل کرنا گوارا کرتا تو اس باندی کو آزاد کر دینے کے بعد اس سے نکاح کرلیتا( کہ وہ جائز تھا ،اور اس سے صدقہ میں کچھ کمی نہ ہوتی تھی لیکن چونکہ اس میں صورت ، صدقہ میں رجوع کی سی تھی) یہ مجھے گوارا نہ ہوا۔اس لیے اس کا نکاح اپنے غلام حضرت نافعؒ سے کر دیا۔
ایک اور حدیث میں ہے  کہ جب ابنِ عمر نماز پڑھا رہے تھے ۔ تلاوت میں جب اس آیت شریفہ پع گزر ہوا تو نماز ہی میں اشارہ سے اپنی ایک باندی کو آزاد کر دیا ۔حق تعالٰی شانہٗ اور اس کے پاک رسول کے ارشادات کی وَقْعَتْ اور ان پر عمل کرنے کی پیش قدمی تو کوئی ان صحابہ اکرام سے سیکھے ۔
حضرت عمر  نے اَبُوْ موسٰی اشعری کو لکھا کہ جلولاء کی باندیوں میں سے ایک باندی ان کے لیے خرید دٰن ۔ انھوں نے ایک بیترین باندی خرید کر بھیجی ۔ حضرت عمر نے اس باندی کو اپنے پاس بلا یا اور یہ آیت شریفہ پڑھی اور اس کو آزاد کر دیا ۔

گھوڑے کا صدقہ


حضرت محمد بن مُنْکَدِر کہتے ہیں کہ جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی سارے چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا ۔ وہ اسے لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئےاور فرما یا یہ صدقہ ہے۔حضور نے قبول فرما لیا ااور ان سے لے کر ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ کو دے دیا ۔ حضرت زید کے چہرے پر اس سے کچھ اس سے گرانی کے آثار ظاہر ہوئے(کہ گھر کے گھر ہی میں رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہو گیا ) حضوراقدس نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جلَّ شانہ نے تمھا را صدقہ قبول کر لیا یعنی تمھارا صدقہ ادا ہو گیا اب میں چا ہے اس کو تمھا رت بیٹے کو دے دوں یا کسی اور کو یا کسی تمھا رے اور رشتہ دار کو ( اس لیے کہ تم تو اپنے بیٹے کو نہیں دے رہے کہ جس سے خود غرضی کا شبہ ہو ، تم مجھے دے چکے ہو اور اب مجھے اختیا ر ہے میں جس کو دل چاہے دوں) ۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک جانور کا گوشت حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔حضور نے خود اس کو پسند نہیں کیا مگر دوسروں کو کھانے سے بھی منع نہیں کیا ۔ میں نے عرض کیا اس کو فقیروں کو دے دوں ۔حضور نے فرمایا ،ایسی چیزوں کو ان کو مت دو جس کو خود کھانا پسند نہیں کرتی۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں