![]() |
پڑوسی کے بارے میں حدیث |
حضور اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ،اس کو چائیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے، اور زبان سے اگر کوئی بات نکالے تو بھلائی کی نکالے ورنہ چپ رہے،اور دوسری روایت میں ہے کی صلح رحمی کرے۔
اس حدیث میں رسول پاک ﷺ نے کئی امور پر تنبیہ فرمائی ہے۔
ایک حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے ،اگر وہ تم سے مدد مانگے تو اس کی مدد کرو ،اگر قرض مانگے تو قرض دے،اگر محتاج ہو تو اس کی اعانت کر ،اگر بیمار ہو تو اس کی عیادت کر ، اگر مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا ، اگر خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دے ،اور اگر مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کر، بغیر اس کی اجازت کے اپنا مکان اس کے مکان سے اونچا نہ کر کہ اس کی ہوا رُک جائے ، اور اگر تو کوئی پھل خریدے تو اس کو بھی ہدیہ دے اور اگر نہ ہو سکے تو پھل کو اس طرح گھر میں لا کہ اس کو وہ نہ دیکھے اور نہ تیری اولاد اس کو لے کر باہر نکلے تاکہ پڑوسی کے بچے اس کو دیکھ کر رنجیدہ نہ ہوں ، اور اپنے گھر کے دھوئیں سے اس کو تکلیف نہ پہنچا مگر اس صورت میں کہ جو پکائے اس میں اس کا بھی حصہ لگائے۔تم جانتے ہو پڑوسی کا کتنا حق ہے ؟ قسم ہے اس پاک زات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس کے حق کے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ جس پر اللہ رحم کرے ۔
روایت کیا ہے اس کو غزالیؒ نے اربعین میں۔کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے( تین مرتبہ فرمایا) خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے ، خدا کی قسم وہ شخص مونم نہیں ہے ،کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ کون شخص مومن نہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی مصیبتوں (اور بدیوں) سے مامون نہ ہو(مشکوتہ عن الشیخین)۔
ابنِ عمر اور حضرت عائشہ دونوں حضور اقدسﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جبرائیلؑ مجھے پڑوسی کے بارے میں اس قدر تا کید کر رہے تھے کہ مجھے ان کی تاکیدوں سے یہ گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا کر رہیں گے (مشکوتہ)۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
تم اللہ تعالٰی کی عبادت اختیار کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور دوسرے اہلِ قرابت کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غرباء کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور واکے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور مسافر کے ساتھ بھی"۔
پاس والے پڑوسی سے مراد یہ ہے کہ اس کا مکان قریب ہو اور دور والے پڑوسی سے مراد کہ اس کا مکان دور ہو ۔حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ پڑوس کہاں تک ہے انہوں نے فرمایا کہ چالیس مکان آگے کی جانب چا لیس مکان پیچھے کی جانب اور چالیس ماکان دائیں کی جانب اور چالیس مکان بائیں کی جانب ۔
حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا گیا کہ دور کت پڑوسی سے ابتداء نہ کی جائے بلکہ پاس کے پڑوسے سے ابتداء کی جائے ۔
حضرت عائشہ نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ میرے دو ہیں میں کس سے ابتداء کروں ؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تیرے دروازے سے قریب ہو۔
حضرت بنِ عباس سے مختلف طریق سی نقل کیا گیا کہ پاس کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت نہ ہو ۔
نوف شامیؒ سے نقل کیا گیا کہ پاس کا پڑوسی مسلمان ہے اور دور کا پڑوسی یہود و انصار یعنی غیر مسلم ۔
حضورﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوں، پڑوس کا حق ،رشتہ داری کا حق ، اور اسلام کا حق۔دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں ، ایک پڑوس کا حق اور دوسرا اسلام کا حق۔ تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہو وہ غیر مسلم پڑوسی ہے اس کا صرف پڑوس کا حق ہے ۔امام غزالیؒ نے اس حدیث شریف کو نقل فرمایا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ دیکھو اس حدیث میں محض پڑوسی ہونے کی وجہ سے مشرک کا حق بھی مسلمان پر قائم فرمایا ہے۔
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ حضورﷺ کی خدمت میں ایک عورت کا حال بیان گیا کہ وہ روزے بھی کثرت سے رکھتی اور تہجّد بھی پڑھتی تھی لیکن اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے۔حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں داخل ہو گی (چاہے پھر سزا بھگت کے بعد کر نکل آئے)۔
قرآن میں ہمیں پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلاک سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے اور مہمان کا اکرام کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اللہ تعالٰی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے۔
آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں