Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

بدھ، 22 نومبر، 2017

بہادری دلیری اور موت کا شوق





اللہ کی راہ میں جہاد کرو





جس کا لازمی نتیجہ بہادری ہے کہ جب آدمی مرنے ہی کے سر ہو جائےتو بھر سب کچھ کر سکتا ہے ۔ساری بزدلی ،سوچ فکر زندگی ہی کے واسطے ہے اور جب مرنے کا اشتیاق پیدا ہو جائے تو نہ مال کی محبت رہے نہ دشمن کا خوف ۔کاش مجھے بھی ان سچوں کے طفیل یہ دولت نصیب ہو جاتی 

             ابنِ حجش اور حضرت سعد کی دُعا 
حضرت عبداللہ بن حجش نے غزوہ احد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ اے سعد آؤ مل کر دعا کریں ۔ہر شخص اپنی ضرورت کے موافق دعا کرے اور دوسرا آمین کہے یہ قبول ہونے کے زیادہ قریب ہے۔دونوں حضرات نے ایک کونے میں جا کر دعا فرمائی ۔اول حضرت سعد نے دعا کی یا اللہ جب کل کو لڑائی ہو تو میرے مقابلے ہیؐ ایک بڑے بہادر کو مقرر فرما جو سخت حملہ والا ہو وہ مجھ پر سخت حملہ کرے اور میں اس پر زور دار حملہ کروں ۔بھر مجھے اس پر فتح نصیب فرما کہ میں اس کو تیرے راستے میں قتل کر دوں اور اس کی غنیمت حاصل کروں ۔حضرت عبداللہ نے آمین کہا اور اس کے بعد حضرت عبداللہ نے دعا کی ،اے اللہ کل میدان میں ایک بہادر سے مقابلہ کروا جو سخت حملہ والا ہو میں اس پر شدت سے حملہ کر دوں اور وہ بھی مجھ پر زور سے حملہ کرے اور پھر مجھے قتل کر دے اور اس کے بعد میری ناک کان کاٹ لے اور پھر جب قیامت میں تیرے حضور میری پیشی ہو ،تو تو کہے کہ اے عبداللہ تیرے ناک اور کان کیوں کاٹے گئے میں عرض کروں کہ یا اللہ تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے راستے میں کاٹے گئے ۔پھر تو کہے سچ ہے میرے ہی راستے میں کاٹے گئے ۔حضرت سعد نے آمین کہا۔ دوسرے دن لڑائی ہوئی اور دونوں حضرات کی دعائیں اسی طرح قبول ہوئیں جس طرح مانگی تھی۔حضرت سعد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حجش کی دعا میری دعا سے زیادہ بہتر تھی۔

            احد کی لڑائی میں حضرت علی کی بہادری
 غزوہ احدمیں مسلمانوں کو کچھ شکست ہوئی تھی۔ جس کی بڑی وجہ نبی اکرم ﷺ کے ایک ارشاد پر عمل نہ کرنا تھی ۔اس وقت مسلمان چاروں طرف سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ شہید بھی ہوئے اور کچھ بھاگے بھی ۔نبی اکرمﷺ بھی کفار کے ایک جتھے کے بیچ آگئے اور کفار نے مشہور کر دیا تھا کہ حضورﷺ شہید  ہو گئے ۔صحابہ اس خبر سے بہت پریشان حال تھےاور اسی وجہ سے بہت سے بھاگےبھی اور ادھر ادھر متفرق ہو گئے ۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب کفار نے مسلمانوں کو گھیر لیا اور حضورﷺ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو میں نے حضورﷺ کو اوّل زندوں میں تلاش نہ پایا  پھر شہداء میں تلاش کیا وہاں بھی نہ پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ا نہیں ہو سکتا کہ آپﷺ لڑائی سے بھاگ جائیں ۔بظاہر حق تعالی شانہُ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم پر ناراض ہو ئے اس لیے اپنے پاک رسولﷺ کو آسمان پر اٹھا لیا اس لیے اب اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ میں بھی تلوار لے کر کافرون کے جتھے میں گھس جاؤں ۔یہاں تک کہ مارا جاؤں ۔میں نے تلوار لے کر حملہ کیا یہاں تک کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے ۔تو میری نظر آپﷺ پر پڑی تو مجھے بے حد مسرت ہوئی ۔تو میں نے سمجھا کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے سے اپنے نبی کی حفاظت کی ہے۔میں حضورﷺ کے پاس جا کر کھڑا ہوا کہ ایک جماعت کی جماعت کفار کی حضورﷺ پر حملہ کے لیے آئی۔حضورﷺ نے فرمایا کہ علی ان کو روکو۔میں نے تنہا ان جماعت کا مقابلہ کیااور ان کے منہ پھیر دیئے اور بعضوں کو قتل کر دیا ۔اس کے بعد پھر ایک اور جماعت حملہ کی نیت سے حضورﷺ پر بڑھی،آپ نے پھر علی کی طرف اشارہ کیااور پھر میں نے تنہا ان کا مقابلہ کیا ۔اس کے بعد حضرت جبرائیل نے آ کر اس کی جوانمردی کی تعریف کی ۔حضورﷺ نے فرمایا کہ بے شک علی مجھ میں سے ہے اور میں علی میں سے ہوں تو پھر حضرت جبرائیل نے فرمایا میں تم دونوں میں سے ہوں۔







کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں