Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

منگل، 21 نومبر، 2017

صحابہ اکرام کے زُہدو فَقر کے بیان










اس بارے میں خود حضورﷺ کا اپنا معمول اور اس کے اوقات جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ چیز حضورﷺ نے خود اختیار فرمائی ہوئی اور پسند کی ہوئی تھی۔اتنی کثرت سے حدیثوں کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں کہ ان کا مثال کے طور پر بھی جمع کرنا مشکل ہے ۔حضورﷺ کا ارشاد ہے؛
 فقر مومن کا تحفہ ہے۔

        حضورﷺ کا پہاڑوں کو سونا بنا دینے سے انکار
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے رب نے مجھ پر یہ پیش کیا  کہ میرے لیے مکہّ کے پہاڑوں کو سونے کا بنا دیا جائے۔میں نے عرض کیا اے اللہ مجھے یہ پسند ہے کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھاؤں تو دوسرے دن بھوکا رہوں تاکہ جب بھوکا ہوں تو تیری طرف رازداری کروں اور تجھے یاد کروں اور جب پیٹ بھروں تو تیرا شکر کروں اور تیری تعریف کروں ۔

             حضرت ابو ہریرہ کی بھوک میں حالت      
حضرت ابو ہریرہ ایک مرتبہ کتّان کے کپڑے میں ناک صاف کر کے فرمانے لگے کیا کہنے ابو ہریرہ کے آج کتّان کے کپڑے میں ناک صاف کرتا ہے ۔حالانکہ مجھے وہ زمانہ وہ زمانہ بھی یاد ہے جب حضورﷺ کے منبر اور حجرہ کے درمیان بے ہوش پڑا ہوا تھا اور لوگ مجنون سمجھ کر پاؤں سے گردن دباتے تھے ۔حالانکہ مجنون نہیں تھا بلکہ بھوک تھی۔یعنی بھوک کی وجہ سے کئی کئی دن فاقہ رہتا تھا اور اس کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ جنون ہو گیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں جنون کا علاج گردن دبا کر کیا جاتا تھا ۔حضرت ابو ہریرہ بڑے صابر اور قانع لوگوں میں سے تھے ۔کئی کئی وقت فاقہ سے گزر جاتے تھے ۔حضورﷺ کے بعد اللہ نے فتوحات فرمائیں تو ان پر نگری آئی۔اس کے ساتھ ہی بڑے عابد تھے ۔ان کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں کھجور کی گٹھلیاں بھری رہتی تھیں اس پر تسبیح پڑھا کرتے ۔جب وہ ساری تھیلی خالی ہو جاتی تھی  تو باندی اس کو پھر بھر کر پاس رکھ دیتی ۔ان کا یہ بھی معمول تھا کہ خود اور بیوی اور خادم تین  آدمی رات کے تین حصے کر لیتے اور نمبر وار ایک شخص تینوں میں سے عبادت میں مشغول رہتا ۔

         حضرت ابو بکر صدیق کا بیت المال سے وظیفہ
حضرت ابو بکر صدیق کے یہاں کپڑے کی تجارت ہوتی تھی ۔اور اسی سے گزر اوقات تھا ۔جب خلیفہ بنائے گئے تو حسبِ معمول صبح کو چند چادریں ہاتھ میں ڈال کر بازار میں فروخت لے لیے تشریف لے چلے۔راستہ میں حضرت عمر ملے ،پوچھا کہاں چلے؟ فرمایا ،بازار جا رہا ہوں ۔حضرت عمر نے کہا کہ اگر تم تجارت میں مشغول ہو گئے تو خلافت کے کام کا کیا ہو گا ؟ فرمایا کہ اہل و عیال کو کہاں سے کھلاؤں ۔فرمایا کہ آپ ابو عبیدہ جن کو حضور ﷺ نے امین ہونے کا لقب دیا ہے  ان کے پاس تشریف لے گئے تا انہوں نے ایک مہاجر کو جو اؤسطاََ ملتا تھا نہ کہ ذیادہ نہ کم ۔وہ مقرر فرما دیا ۔
ایک دن بیوی نے درخواست کی کہ کوئی میٹھی چیز کھانے کو دل چاہتا ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ میرے پاس تو دام نہیں کہ خریدوں ،اہلیہ نے کہا کہ ہم اپنے روز کے کھانے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا لیا کریں گے کچھ دنوں میں اتنی مقدار ہو جائے گی ۔آپ نےاجازت فرما دی ۔ اہلیہ نے کچھ روز میں تھوڑے پیسے جمع کئے۔آپ نے فرمایا کہ تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ اتنی مقدار ہمیں بیت المال سے زیادہ ملتی ہے ۔اس لئے جو اہلیہ نے جمع کیا تھا وہ بھی بیت المال میں جمع کروا دیا اور آئندہ کے لیے اتنی مقدار جتنا انہوں نے روزانہ جمع کیا تھا اپنی تنخواہ میں سے کم کر دیا ۔

 حضورﷺ  کا صحابہ سے دو شخصوں کے بارے میں سوال 
نبی اکرمﷺ کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر تھے ۔ایک شخص سامنے سے گزرا حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں کا اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟عرض کیا یا رسول اللہ شریف لوگوں میں ہے ۔وَاللہ اس قابل ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیام دے دے تو قبول کیا جائے ۔کسی کی سفارش کر دی تو مانی جائے ۔حضورﷺ سن کر خاموش ہو گئے ۔اس کے بعد ایک اور صاحب سامنے سے گزرے ،حضورﷺ نے ان کے متعلق بھی سوال کیا ۔لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ایک مسلمان فقیر ہے کہیں منگنی کرے تو بیاہا نہ جائے اور اگر کہیں سفارش کرے تو قبول نہ ہوبات کرے تو کوئی متوجہ نہ ہو ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اس پہلے جیسوں سے ساری دنای بھر جائے تو تو ان سب سے یہ شخص بہتر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ محض دنیاوی شرافت اللہ کے ہاں کچھ بھی وقعت نہیں رکھتی،ایک مسلمان فقیر جس کی دنیا میں کوئی وقعت نہ ہو ،اللہ کے نزدیک سینکڑوں ان شرافاء سے بہتر ہے جن کی دنیا میں بڑی وقعت ہوتی ہے اور ہر ایک ان کی سننے اور ماننے کو تیار ہوتا ہے لیکن اللہ کےیہاں اس کی کوئی وقعت نہیں نہ ہو۔دنیا کا قیام ہی اللہ والوں کی برکت سے ہے ۔
یہ تو حدیث میں بھی موجود ہے ۔
جس دن دنیا میں اللہ کا نام لینے والا نہ رہے گا ،قیامت آ جائے گی۔اور دنیا کا وجود ہی ختم ہو جائے گا ۔
اللہ کے پاک نام کی ہی یہ برکت ہے کہ یہ دنیا کا سارا نظام قائم ہے۔





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں