ایثار کہتے ہیں اپنی ضرورت کے وقت دوسرے کو ترجیح دینا ۔اوّل تو صھابہ اکرام کی ہر ادا ہر عادت ایسی ہے جس کی برابری تو درکنار اس کا کچھ حصہ بھی کسی خوش قسمت کو نصیب ہو جائے تو عین سعادت ہے لیکن بعض عادتیں ان میں سے ایسی ممتاز ہیں کہ انہیں کاحصہ تھیں ۔ان کے منجملہ ایثار ہے کہ حق تعالی شانہُ نے اس کی تعریف فرمائی اوریُؤْثِرُوْنَ عَلٰیٓ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَتہٌ میں اس صفت کو ذکر فرمایا کہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان پر ہی فاقہ ہو۔
صحابی کا مہمان کی خاطر چراغ بُجھا دینا
ایک صحابی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اور بھوک اور پریشان حالت کی اطلاع دی ۔حضورﷺ نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا تو کچھ نہ ملاتو حضورﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے؟ایک انصاری صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ میں قبول کروں گا ۔گھر کئے اور بیوی سے کہا کہ حضورﷺ کے مہمان ہیں جو اکرام کر سکے اس میں کسر نہ کرنا اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا ۔بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے قابل کچھ تھوڑا رکھا ہےاور گھر میں کچھ بھی نہیں ہے ۔صحابی نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور وہ جب سو جائیں گے تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے ۔اور تو چراغ کو درست کرنے کے بہانے سے اس کو بجھا دینا ۔چناچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور میاں بیوی اور بچوں نے فاقے سے رات گزاری ۔
ایک مہاجر اور ایک انصاری کی چوکیداری اور انصاری کا نماز میں تیر کھانا
نبی اکرمﷺ ایک ٖغزوہ سے تشریف لا رہے تھے ۔شب کو ایک جگہ قیام کیا اور فرما کہ آج شب کی حفاظت اور چوکیداری کون کرے گا؟ایک مہاجر اور ایک انصاری دونوں نے عرض کیا کہ ہم کریں گے ۔حضورﷺ نے ایک پہاڑی جہاں سے دشمن کے آنے کا راستہ ہو سکتا تھا بتا دی کہ وہاں پر قیام کرو۔دونوں حضرات وہاں تشریف لے گئے ۔وہاں جا کر انصاری نے مہاجر سے کہا کہ رات کو دو حصوں میں منقسم کر لیتے ہیں ایک حصے میں آپ سوتے رییں اور میں جاگتا رہوں اور ایک حصے میں آپ جاگتے رہیں اور میں آرام کر لوں۔اس لیے کہ دونوں کے تمام رات جاگنے پر بھی احتمال ہے ۔کہ کسی وقت نیند کا غلبہ ہو جائے اور دونوں کی آنکھ لگ جائے ۔اور اگر کوئی خطرہ جاگنے والے کو محسوس ہو تو اپنی ساتھی کو جگا لے ۔رات کا پہلا حصہ انصاری کے جاگنے کا قرار پایا اور مہاجر سویا اوی انصاری نے نماز کی نیت باندھ لی ۔دشمن کی جانب سے ایک شخص آیا اور دور سے کھڑے ہوئے شخص کو دیکھ کر اس کو تیر مارا اور جب کوئی حرکت نہ ہوئی تو پھر دوسرا اور پھر تیسرا تیر مارا اور تیر ان کے بدن میں گھستے رہے اور یہ ہاتھ سے ان کو بدن سے نکال کر پھینکتے رہےاس کے بعد پورے اطمینان سے رکوع کیا اور پھر سجدہ کیا۔نماز پوری کر کے اپنے ساتھی کو جگایا ۔تو وہ ایک کی جگہ دو کو دیکھ کر بھاگ گیا کہ نامعلوم کتنے ہوں ۔مگر جب ساتھی نے اُٹھ کر دیکھا تو انصاری کے بدن سے تین جگہ سے خون ہی خون بہہ رہا تھا ۔مہاجر نے فرمایا سبحان اللہ تم نے مجھے شروع ہی میں کیوں نہ جگایا انصاری نے فرمایا کہ مین نے سورتہ کہف شروع کی ہوئی تھی اور میرا دل نہ کیا کہ میں اسے پوری کئے بغیر رکوع کروں ۔اب بھی مجھے اس کا یہ اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ میں بار بار تیر لگنے کہ وجہ سے مر جاؤں اور حضورﷺ نے حفاظت کی خدمت جو سپرد کی ہے وہ فوت ہو جائے ۔اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں مر جاتا مگر سورت ختم ہونے سے پہلے رکوع نہ کرتا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں