![]() |
کم کھائیں |
چھٹا فائدہ؛
چھٹا فائدہ یہ ہے کہ کم کھانے سے نیند کم آتی ہے ۔ کثرت سے جاگنے کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔ اس لیے پیٹ بھر کر کھانے سے پیاس خوب لگتی ہے،اور پانی پینے سے نیند خوب آتی ہے۔مشائخ کا مقولہ ہے کہ زیادہ نہ کھاؤ ورنہ زیادہ پانی پیو گے،پھر زیادہ سوؤ گے جس کی وجہ سے زیادہ خسارہ میں رہو گے۔
کہتےہیں کہ سترحکیموں کا اس پر اتفاق ہے کہ زیادہ پانی ہینے سے زیادہ نیند آتی ہے، اور زیادہ سونے میں عمر کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اور تہجد کا فوت ہو جانا علیحدہ رہا۔نیز زیادہ سونے سے طبیعت کی بلاوت اور دل کی قساوت بھی پیدا ہوتی ہے اور بیوی پاس نہ ہو تو احتلام کا سبب بھی ہوتا ہے ۔پھر غسل کے اسباب مہیا نہ ہونے میں اکثر تہجد بھی فوت ہو جاتی ہے۔
ساتواں فائدہ؛
ساتواں فائدہ عبادت پر سہولت سے قادر ہونا ہے کہ پیٹ بھر کر کھانے سے اکثر کاہلی پیدا ہوتی ہے جو عبادت کو مانع ہوتی ہے۔ اور خود کھانے ہی میں بہت سا وقت ضائع ہوجاتا ہے، اور اگر اس کو تیار بھی کرنا پڑے تو اور بھی زیادہ اضاعت وقت ہے پھر کھانے کے بعد ہاتھ دھونا ، خلال کرنا ، پھر بار برا اُٹھ کر پانی پینا، ان سب اوقات کا حساب لگایا جائے تو کتنا وقت ہوا۔ اگر یہ سارا وقت اللہ کی یاد میں اور دوسری عبادتوں میں خرچ ہوتا تو کتنا نفع کماتا۔
حضرت سَرِیّ سَقَطیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے علی جرجانیؒ کے ساتھ ستّو دیکھا جس کو وہ پھانک رہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ ستو کی عادت کیسے پڑ گئی۔ فرمانے لگے میں نے جو حساب لگایا تو لقمہ منہ میں رکھنے سے اس کے نگلنے تک ستّر مرتبہ سُبْحَانَ اللہ کہنے کا وقت ملتا ہے اس وجہ سے میں نے چالیس سال سے روٹی نہیں کھائی کہ اس و چبانے میں بہت دیر لگتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ آدمی کا ہر سانس بہت قیمتی جوہر ہے ۔ جس کو آخرت کے خزانہ میں محفوظ کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ کبھی ضائع نہ ہو ۔ اور اس کی صورت صرف یہ ہی ہے کہ اس سانس کو اللہ کے ذکر یا کسی اور عبادت میں صرف کر دے ۔اس کے علاوہ کھانا زیادہ کھانے سے وضو کم ٹھرتی ہے۔اور مسجد میں زیادہ اوقات نہیں گزار سکتا کہ بار بار قضائے حاجات کی وجہ سے نکلنا پڑتا ہے۔ کم کھانے کے اتنے کثیر فائدے ہیں کی جن کا شمار نہیں ہے۔اس کی قدر وہ غافل لوگ کیا جانیں جن کو دین کی قدر ہی نہیں ہے۔ وہ دنیا کی چند روزہ زندگی پر راضی ہو کر مطمئن ہو گئے، پس دنیا ہی کے حالات کو جانتے ہیں ۔ان کو آخرت کی خبر ہی نہیں کہ آخرت کیا چیز ہے۔
آٹھواں فائدہ؛
آٹھواں فائدہ کم کھانے میں بدن کی صحت ہے کہ بہت سے امراض زیادہ کھانے ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔کہ اس کی وجہ سے معدہ میں اور لوگوں میں اِخْلاَطِ رَوِیہَّ جمع ہوتے ہیں، جن سے طرح طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں ۔
کہتے ہیں ہارون رشیدؒ نے ایک مرتبہ چار حکیموں کو جمع کیا ۔ایک ہندی ماہر۔دوسرا رومی ، تیسرا عراقی ، چوتھا سوادی، اور چاروں سے دریافت کیا کوئی ایسی دوا بتاؤ جو کسی چیز کو نقصان نہ کرتی ہو ۔ہندی نے کہا میرے خیال میں جو کسیہ چیز کو نقصان نہیں پہنچاتی وہ ہَلیْیَہ سیاہ ہے۔عراقی نے کہا ہالون ہے ۔ رومی نے کہا میرے نزدیک گرم پانی ہے ،یعنی وہ کسی چیز کو مضر نہیں ہے۔سوادی نے کہا یہ سب غلط ہے۔ ہلیلہ معدہ کو روندتا ہے ۔اور بیماری ہے ۔اور ہالون معدہ میں پھسلن پیدا کرتا ہے ۔ اور گرم پانی معدہ کو ڈھیلا کرتا ہے ۔ان سب طبیبوں نے کہا کہ پھر تم بتاؤ کہ ایسی کیا دوا ہے جو کسی کو نقصان نہیں کرتی ۔ سوادی نے کہا کھان اس وقت تک نہ کھا یا جائے جب تک خوب رغبت نہ پیدا ہو ، اور ایسی حالت میں ختم کیا جائے کہ رغبت باقی ہو ۔باقی تینوں طبیبوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا ۔
نواں فائدہ؛
نواں فائدہ اخراجات کی کمی ہے ۔جو شخص کم کھانے کا عادی ہو گا اس کا خرچ بھی کم ہو گا، اور زیادہ کھانے سے اس کے اخراجات بھی بڑھیں گے ، جن کے حاصل کرنے کی لیے یا تو ناجائز طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہو گا یا تو کسی سے مانگنے کی ذلت اختیار کرے گا ۔
ایک اور حکیم کا قول ہے کہ جب مجھے اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی اور سے قرض مانگنے کی ضرورت پڑے تو میں اپنے نفس سے ہی قرض مانگ لیتا ہوںاور اس کو سمجھا دیتا ہوں کی اس کو پھر کسی وقت ادا کر دوں گا ۔یعنی تیری خواہش اس وقت میرے ذمہ قرض ہے اس کو میں کسی اور وقت پوری کر دوں گا ۔
دسواں فائدہ؛
دسواں فائدہ ایثار ، ہمدردی اور صدقات کی کثرت کا سبب ہے۔کم کھانے کی وجہ سے جتنا کھانا بچے گا وہ یتامیٰ ، مساکین ، غرباء پر صدقہ ہو کر قیامت میں ان کے لیے سایہ بنے گا ۔حضورﷺ کا ارشاد پہلے بھی گزر چکا ہے کہ آدمی قیامت کے دن اپنے صدقے کے نیچے ہو گا ۔اور جتنا زیادہ کھائے گا وہ پاخانہ بن کر کوڑی پر جمع ہوتا رہے گا ۔اور جو اللہ تعالی کے خزانے میں جمع ہو گیا وہ ہمیشہ کام آتا رہے گا ۔ اور جو پاخانہ ہو گیا وہ ضائع ہو گیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں