Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

اتوار، 19 نومبر، 2017

بچوں کا دین کےلیے جزبہ



ایسا بھروسہ ہونا چاہیے۔




کم سِن اور نو عمر بچوں میں دین کے لیے جزبہ تھا وہ حقیقت میں بڑوں کی پرورش کا ثمرہ تھا ۔اگر ماں باپ اور دوسرے اولیا اولاد کو شفقت میں کھو دینے کے بجائے شروع ہی میں ان کی دینی حالت کی خبر گیری اور اس پر تنبیہ رکھیں تو دین کے امور بچوں کے دلوں میں جگہ پکڑیں اور بڑی عمر میں جا کر وہ چیزیں ان کے لیے بمنزلہ عادت ہو جائیں ۔لیکن ہم لوگ اس کے برخلاف بچے کی ہر بری بات پر بچہ سمجھ کر چشم پوشی کرتے ہیں بلکہ زیادہ محبت کا جوش پیدا ہوتا ہے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور دین میں جتنی کوتاہی دیکھتے ہیں اپنے دل کو کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ بڑے ہو کر سب درست ہو جا ئے گا۔ حالانکہ بڑے ہو کر وہی عادات پکی ہو جاتی ہیں جن کا شروع ہی میں بیج بویا جا چکا ہے۔آپ چاہتے ہیں کہ بیج چنے کا ڈالا جائے اوراس سے گہیوں پیدا ہو ۔یہ مشکل ہے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے میں اچھی عادتیں پیدا ہوں ،دین کا اہتمام ہو،دین پر عمل کرنے والا ہو تو بچپن ہی سے اس کو دین پر عمل کرنے کا عادی بنایا جائے۔
صحابہ اکرام بچپن ہی سے اپنی اولاد کی نگہداشت فرماتے تھے اور دینی امور کا اہتمام کراتے تھے ۔
حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ایک شخص کو پکڑ کر لایا گیا جس نے رمضان میں شراب پی رکھی تھی اور روزہ سے نہیں تھا ۔حضرت عمر نے فرمایا تیرا ناس ہو ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں۔یعنی تو اتنا بڑا ہو کر بھی روزہ نہیں رکھتا۔اس کت بعد اس کو اسّی کوڑے شراب کی سزا میں مارے اور مدینہ سے نکل جانے کا حکم فرما کر ملک شام کی طرف چلتا کر دیا ۔
                      بچوں کو روزہ رکھوانا 
ربیع بنت مُعّوِذ کہتی ہیں کہ حضورؐ نے ایک مرتبہ اعلان کرایا کہ آج عاشورہ کا دن ہے سب کے سب روزہ رکھیں ۔ہم لوگ اس کے بعد سے ہمیشہ روزہ رکھتے رہے اور اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے تھے۔جب وہ بھوک کی وجہ سے رونے لگتے تو روئی کے گالے کے کھلونے بنا کر ان کو بہلایا کرت تھے اور افطار کے وقت تک اسی طرح ان کو کھیل میں لگائے رکھتے تھے۔
                حضرت ابنِ عباس کی بچپن میں حفظ قرآن
خود حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مجھ سے تفسیر پوچھو میں نے پچپن میں قرآن شریف حفظ کیا ہے۔دوسری حدیث میں ہے کہ میں نے دس برس کی عمر میں اخیر کی منزل پڑھ لی تھی ۔اس زمانہ کا پڑھنا ایسا نہیں تھا جیسا کہ اس زمانہ مین ہم لوگ غیر زبان والوں کا،بلکہ جو کچھ پڑھتے تھے وہ مع تفسیر کے پڑھتے تھےاسی واسطے حضرت ابنِ عباس تفسیر کے بہت بڑے امام ہیں کہ بچپن کا یاد کیا ہوا بہت محفوظ ہوتا ہے ۔
          دو انصاری بچوں کا ابو جہل کو قتل کرنا 
حضرت عبداللہ بن عوف مشہور اور بڑے صحابہ میں ہیں ۔فرماتے ہیں کہ میں بدر کی لڑائی میں میدان میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا ۔ میں نے دائیں دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں جانب انصار کے دو کم عمر لڑکے ہیں مجھے خیال ہوا کہ اگر میں قوی اور مضبوط لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ۔میرے دونوں جانب ہیں یہ کیا مدد کر سکیں گے۔اتنے میں ان دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ،چچاجان  کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہو۔میں نے کہا ہاں پہچانتاہوں ۔تمھاری کیا غرض ہے ؟ اس نے کہا مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ حضورﷺ کی شان میں گالیاں بکتا ہے اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں،تو اس وقت تک اس سے جدا نہ ہوں گا کہ وی مر جائے یا میں مر جاؤں۔مجھے اس کے سوال اور جواب پر تعجّب ہوا ۔اتنے میں دوسرے نے بھی یہی سوال کیا اور جو پہلے نے کہا تھا اس نے بھی وہی کہا ۔اتفاقاََ میدان میں مجھے ابوجہل دوڑتا ہوا دکھائی دیا ۔میں نے ان سے کہا کہ تمھارا مطلوب جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کر رہے تھے وہ جارہا ہے۔دونوں یہ سن کر تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے ایک دم بھاگے چلے گئے اور جاکر اس پر تلوار چلانا شروع کر دی یہاں تک کہ اس کو گرا دیا۔یہ دونوں صاحبزادے معاذبن عمروبن جموح اور معاذ بن عفرا ہیں ۔معاذ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں لوگوں سے سنتا تھا کہ ابو جہل کو کوئی نہیں مار سکتا ،وہ بڑی حفاظت میں رہتا ہے مجھے اسی وقت سے خیال تھا کہ میں اس کو ماروں گا ۔






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں