Islamic Religion

I will provide all the information about Islam...

Recent Posts

Ads Here

ہفتہ، 25 نومبر، 2017

آپﷺ کی ولادت اور وصال ربیع الاوّل کے مہینہ میں















حضورﷺ کی ولادت باسعادت اور آپﷺ کا وصال مبارک پیر کے دن ہوا ۔
چناچہ حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے؛
رسولﷺ سے پیر والے دن روزے کے بارے میں سوال کیا گیا؛ ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی دن میری ولادت ہوئی ،اور اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔
اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ؛
نبی ﷺ کی وفات پیر کے دن ہوئی ۔
اور حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے کہ ؛
رسولﷺ کی ولادت پیر کے دن ہوئی اور آپ پر وحی کا نزول بھی اسی دن شروع ہوا ،اور آپ کی وفات بھی پیر کے دن ہوئی ۔
اور جمہور اہلِ علم حضرات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ربیع الاول کے مہینہ اور اس سال واقع ہوئی ،جس سال ابارہہ بادشاہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی کوشش کی تھی،اور اس کو عربی میں "عام الفیل" کہا جاتا ہے۔
نیز آپ ﷺ کیوفات مبارک بھی ربیع الاول کے مہینہ میں واقع ہوئی۔
حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں ؛
رسول اللہ کی ولادت عام الفیل کے مہینہ میں ہوئی ۔
اور حضرت قیس بن محرمہ فراماتے ہیں ؛
میری اور رسول ﷺ کی ولادت عام الفیل کے مہینہ میں ہوئی ،تو ہم عمر کے لحاظ سے جڑواں ہیں۔
اور امام نوویؒ فرماتے ہیں ؛
اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ آپﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مبارک مہینے میں پیر کے دن ہوئی ،اور آپ کی وفات بھی ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی۔
لیکن  نبی ﷺ کی ولادت اور وفات پیر کے دن اور ربیع الاول کے مہینے اور (ولادت) عام الفیل میں ہونے پر جمہور کے اتفاق کے باوجود اس میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ ربیع الاول کی کون سی تاریخ تھی؟
ان دونوں باتوں میں مورخین اور محدثین کا اختلاف ہے ۔

             نبی اکرمﷺ کی تاریخِ ولادت باسعادت 
جہاں تک نبی ﷺ کی ولادت کا تعلق ہے ، کہ وہ ربیع الاول کی کون سی تاریخ میں ہوئی َ تو اس میں مختلف اقوال ہیں ۔
چناچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں ؛
اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ولادت ربیع الاول کے مہینہ میں پیر کے دن ہوئی ،لیکن اس میں اختلاف ہے کہ کیا وہ ربیع الاول کی دوسری تاریخ تھی، یا آٹھویں تاریخ تھی ، یا دسویں تاریخ تھی ،،یا بارھویں تاریخ تھی؟ یہ چار اقوال مشہور ہیں ۔
اور امام محمد بن یوسف صالحی شامی فرماتے ہیں ؛
اور ایک قول آٹھ ربیع الاول کا ہے ، جس کو ابو عمر نے حساب اور تاریخ دنوں سے نقل کیا ہے ، کہ انہوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، اور ابنِ دحیہ نے بھی اس کو جح قرار دیا ہے ،اور حافظ نے فرمایا کی اکثر روایات کا تقاضا بھی یہی ہے ،اور ایک قول دس ربیع الاول کا ہے ،جس کو دمیاطی نے جعفر باقر سے نقل کیا ہے ، اور اس کو صحیح قراردیا ہے، اور ایک قول سترہ ربیع الاول کا ہے ، اور ایک قول اٹھارہ  ربیع الاول کا ہے ،اور ایک قول پہلی ربیع الاول کا ہے ، طلوع فجر کے وقت اور حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ فرماتے ہیں ؛
ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پر نور بارہ ابیع الاول کو پیدا ہوئے ،لیکن جمہور محدثین اور مورخین کے نزدیک راجع اور مختار قول یہ ہے کہ حضورﷺ آٹھ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔

                    نبی ﷺ کی تاریخ وفات
نبی ﷺ کی وفات ربیع الاول کی کون سی تاریخ میں ہوئی ؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں ۔
چناچہ ابوالقاسم عبدالرحمٰن احمد سہیلی فرماتے ہیں ؛
اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول ﷺ کی وفات پیر کے دن ہوئی ، مگر کچھ (ضعیف قول ) بدھ کے روز کا بھی ہے ، جس کو ابنِ قتیبہ نے معارف میں ذکر کیا ہے ، تمام حضرات نے ربیع الاول میں وفات پر اتفاق کیا ہے، مگر ان سب یا اکثر نے ربیع الاول کی بارہ تا ریخ کو وفات قرار دیا ۔
امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے ؛
اور صقعب بن زہیر نے فقہائے اہلِ حجاز سے بھی دو ربیع الاول کو آپ ﷺ کی وفات نقل کی ہے ۔
جس کو ابنِ جریر طبری نے تاریخ الامم میں روایت کیا ہے؛
علاوہ ازیں حضرت ابو معشراور یحییٰ بن بکیر کی روایت اور اکثر حضرات کی تصریح کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق کی وفات بائیس جمادالاخرٰی تیرہ ھجری ہے۔
اور صحیح روایت کے مطابق آپ کی خلافت کا زمانہ حضورﷺ کے وصال سے شروع ہو کر دو سال تین مہینے اور بیس دن بنتا ہے۔
اس کے حساب سے بھی حضورﷺ کی وفات دو ربیع الاول کو صحیح قرار پاتی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی وفات کا بارہ ربیع الاول کو ہونا تو حساب سے درست نہیں بنتا ، اور مختلف اقوال میں سے دو ربیع الاول کے قول کو اکثر حضرات نے راجح قرار دیا ہے ، جس کی بیشتر روایات سے بھی تائید ہوتے ہے ، جبکہ بعض نے یکم ربیع الاول  کو راجح قرار دیا ہے۔

     تاریخ ولادت اور تاریخ وفات میں اختلاف کی وجہ
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپﷺ کی ولادت باسعادت اور وصال مبارک کی تاریخوں میں یہ اختلاف کیوں پیدا ہوا ، جبکہ صحابہ کرام ،محدثینِ عظام اور فقہائے کرام نے آپ ﷺ کی ہر ہر ادا اور طرزِ عمل کو  محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا ہے، اور اللہ نے ان حضرات کو حافظے بھی عجیب و غریب طرح عطا فرمائے تھے ۔
لہذا یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ان حضرات کے حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا ۔
بات دراصل یہ ہے کہ آپﷺ کی تاریخ ولادت اور تاریخِ وفات سے متعین طور پر امت کے لیے کوئی خاص (غمی یا خوشی) کا حکم وابستہ نہیں تھا ، اس لیے اس کی حفاظت کا منجانب اللہ کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کرایا گیا ، اور اللہ تعالٰی کی طرف سے تکوینی طور پر اختلاف منظور ہوا ، جس میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں وابستہ تھیں ۔
واللہُ اعلم



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں