![]() |
بچوں سے پیار کریں |
بچپن میں پیش آنے والے بیشتر فرحت انگیز یا نا خوش گوار واقعات آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں ، ہوں جیسے کل ہی کی بات ہو۔
آپ اپنے ذہن کی باگیں ذرا ماضی میں گزرے ایامِ طفولیت کی طرف موڑ یے،بے اختیار آپ کو خوشی غمی کے مختلف واقعات یاد آئیں گے۔آپ کو یاد آئے گا کہ سکول کے کسی مقابلے میں حصہ لینے پر آپ نے انعام حاصل کیا تھا۔ آپ کو یاد آئے گا کہ ایک محفل میں کسی نے آپ کی ستایش کی تھی۔یہ اور اسی طرح کے اور کئی خوشی کے موقع آپ کے حافظے کی لوح پر کندہ ہوں گےجنھیں آپ بھلا نہیں سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم بچپن میں پیش آمد ناخوشگوار اور دکھی واقعات بھی یاد رکھتےہیں۔استاد نے کبھی پیٹا ہو یا اسکول میں کسی سے جھگڑا ہوا یا ایسے مواقع جن میں ہم خاندان والوں کی طرف سے توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ پچوں سے اچھا سلوک کرنا یہ نہ صرف خود اُنھیں متاثر کرتاہے بلکہ اُ نکے والدین اور عزیز و اقارب بھی اس کا خوش کن اثر لیے بغیر نہیں رہتے۔
بچے کے سامنے مسکراہٹ کو معمولی نہ جانیے۔ آپ کے بہترین طرزِ عمل ہی سے بچے کے دل میں آپ کی جگہ بن پائے گی۔
ایک دن میں نے ایک مقامی سکول میں ننھے طلبہ کو نماز کے موضوع پر لیکچر دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ کسی پچے کو نماز کی اہمیت کے متعلق کوئی حدیث یاد ہوتو بتائے۔ ایک بچہ کھڑا ہوااور بولا :" رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے؛
((بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الْکُفْرِ اَوِالشَّرْکِ تَرْکُ الصَّلاَتہِ))
ترجمہ: آدمی اور کفر و شرک کو ملانے والی کڑی ترکِ نماز ہے۔
مجھے اس کاجواب بہت پسند آیا اور اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے اپنی گھڑی اتار کر اسے انعام میں دے دی۔
میرے دئے ہوے انعام نے لڑکے کو بہت انگیز کیا۔ اسے علم سے محبت بڑھ گئی اور اس کی قدروقیمت کا احساس ہوا۔بعد ازاں وہ حفظِ قرآن کی طرف متوجہ ہو گیا۔سالہاسال گزر گئے۔ ایک دن میں مسجد میں نماز کے لیے گیا تو دیکھا وہی لڑکا جسے کئی سا پہلے انعام دیا تھا ، مسجد کا امام ہے۔اب وہ فارغ ہو چکا تھا اور شریعہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد قضاء کے شعبے میں خدمات سر انجام دے رہاتھا۔میں نے اسے نہیں پہچانا لیکن اس نے مجھے پہچان لیاتھا۔
جس محبت اور عزت افزائی سے وہ کئی سال پہلے بہرہ ور ہوا تھا اس کا خوش گوار اثر آج بھی اس کے ذہن میں باقی تھا۔
بچوں سے طرز عمل کے سلسلے میں لوگوں کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک آدمی محفل میں آتا ہے اور فرداََ فرداََ حاضرینِ محفل سے ہاتھ ملاتا ہے۔اس کے پیچھے اس کابچہ بھی والد کی نقل کرتا ہے حاضرین میں سے کوئی تو بچے سے تغافل برتتاہے، کوئی سرسری مصافحے پر اکتفا کرتا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ زور سے ہلاتے ہوئے پر جوش انداز میں کہتا ہے: " آؤ میرے شیر ! شرارتی کیا حال ہے تمھارا؟" یہ آخری شخص بچے کے دل پر اپنی محبت ثبت کر دے گا۔
مربیِ اول ﷺ بچوں سے بہت مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔ انس بن مالک کا چھاٹا بھائی تھا۔ رسولﷺ اس سے بہت لاڈ پیار کرتے ۔ آپ اسے ابو عمیر کی کنیت سے پکارتے تھے۔ ننھے کے پاس ایک پرندہ تھا جس سے وہ کھیلتا تھا۔ پرندہ مر گیا۔ اس کے بعد رسولﷺ اس سے جب بھی ملتے پیار سے کہتے؛
ابو عمیر !وہ (نُغَیر) کا کیا ہوا؟
زینب بنت ام مسلمہ کو رسولﷺ محبت سے پکارتے ؛
یَا زُوَینِب، یَا زُوَینِب
رسولﷺ انصار کے ہاں جاتے تو ان کے بچوں کو سلام کہتے اور ان کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے۔
رسولﷺ ایک دن وضو کر رہے تھے۔ایک پانچ سالہ بچہ محمود بن ربیع آپ کی طرف آیا۔ آپ نے منہ میں پانی ڈالا اور بچے سے دل لگی کرتے ہوئے اس کے چہرے پر کلی کی۔
رسولﷺ بڑے ہنس مکھ اور ہشاش بشاش تھے۔آپ سے مل کر لوگوں کے دل سرور وانبساط کے خوبصورت جزبات سے بھر جاتے ۔ آپ کی محفل میں بیٹھا کوئی بھی آدمی اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا تھا۔
ایک دن کوئی آدمی سواری کاجانور مانگنے رسولﷺ کے ہاں آیا۔ آپ نے اس سے کہا؛
میں تو آپ کو اونٹنی کا بچہ دوں گا۔
آدمی کو قدرے تعجب ہوا کہ اونٹنی کا بچہ اس کابار کیوں کر اُٹھائے گا۔اس نے کہا؛
اللہ کے رسول! اونٹنی کابچہ لے کر میں کیا کروں گا؟
رسولﷺ نےخوش طبعی سے جواب دیا؛
اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ۔
ایک دن رسولﷺ ہنستے ہوئے انس کو بلایا؛
او دو کانوں والے
رسول ﷺ سے کوئی خوش طبعی کرتا تو آپ اس کا ساتھ دیتے اور خوب ہنستے اور مسکراتے۔
عمر رسولﷺ کے پاس ان کے کمرے میں آئے ۔ نبی ﷺ اُن دنوں اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے کہ اُنھوں نے آپ سے نفقہ بڑھانے کا اصرار کیا تھا۔
عمر نے نبیﷺ کوخوش کرنے کے لیے کہا؛
آللہ کے رسول ! آپ کبھی ہمارا حال بھی ملاخطہ کیجئے۔ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پع غالب تھے۔ ہم میں سے کسی کی بھی عورت اس سے نفقے کا مطالبہ کرتی تو وہ اُٹھ کر اس کی گردن مڑوڑ دیتا۔پھر جب ہم مدینہ آئے ،ہم نے ایسی قوم دیکھی جس پر اس کی عورتوں کاغلبہ ہے۔ ہماری عورتوں نے بھی اُن کی عورتوں سے یہ انداز سیکھنا شروع کر دیا۔
عمرکی بات سن کر رسولﷺ مسکرا دیے، عمر نے چند اور باتیں کیں تواپ اور مسکرائے۔
حضور ﷺ خوش مزاج و خوش گوار انسان اور انیسِ محفل تھے۔لوگوں کے ساتھ اگر ہمارا رویہ بھی یہی ہو اور ہم ایسا ہی خوبصورت طرزِ عمل اپنا نےکی سعی کریں تو حقیقی معنوں میں زندگی کا لطف اٹھاسکتے ہیں۔
نقطئہ نظر
بچہ گیلی مٹی ہوتاہے۔ ہم اس سے جیسا سلوک کریں گے ، ویسا کردار اپنائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں